کراچی:وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے گی تو اس کو سیاسی فائدہ سندھ میں ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی نشستوں کے حصول میں ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی کو اس کا فائدہ وفاقی نشست پر ہوگا۔
صوبہ سندھ میں کوووڈ کے خاتمہ تک ایس او پیز کے تحت تعلیمی ادارے 50 فیصد ہی بچوں کو بلانے پر پابند ہوں گے۔ وفاقی وزیر تعلیم کی جانب سے ایک جانب 100 فیصد بچوں کی اجازت کا اعلان کیا جاتا ہے تو دوسری جانب ایس او پیز پر عمل درآمد کا بھی کہا جارہا ہے۔
جو حالات اس وقت ہمارے تعلیمی اداروں بالخصوص نجی تعلیمی اداروں میں ہے اس میں یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ 100فیصد بچوں کو ایک ساتھ بلایا جاسکے۔ ہم صوبے بھر میں اساتذہ کی خالی اسامیوں کو یوسی کی سطح پرٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد میرٹ پر بھرتیاں کرنے جارہے ہیں۔
اساتذہ کی ٹراسفر کی پالیسی کو بھی شفاف بنایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تین کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ اساتذہ اب خود پورٹل کے ذریعے درخواست دیں گے اور انہیں کسی قسم کی کوئی درخواست براہ راست دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
صوبے بھر کے 7 ہزار ایسے اسکولز جو اساتذہ کی گذشتہ کئی سالوں سے بھرتیوں پر پابندی کے باعث بندش کا شکار ہیں ان میں ٹرانسفر کا عمل شروع کیا گیا ہے البتہ باقی مانندہ ٹراسفرز نئے تعلیمی سال کے بعد اگست میں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں 6 ہزار اسکولز کو کلاسٹر کرکے وہاں ایک ایک سیکنڈری اسکول کے حوالے سے بھی کام کا آغاز کردیا گیا ہے اور 2 ہزار سیکنڈری اسکولز کے لئے رواں سال مختلف منصوبے بنائے گئے ہیں۔
اس سال پی ایس ٹی اساتذہ کا گریڈ 9 سے بڑھا کر 14 کردیا گیا ہے جبکہ اس کی تعلیمی قابلیت کم از کم گریجویٹ کردی گئی ہے جبکہ پرائمری ٹیچر بھرتی ہونے والے اساتذہ کا پرموشن ضرور ہوگا لیکن وہ پرائمری ٹیچر ہی رہے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے کیمپ آفس میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری تعلیم سندھ احمد بخش ناریجو بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم کی اسٹرنگ کمیٹی کے آخری اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ صوبے بھر میں تعلیمی ادارے مکمل ایس او پیز کے ساتھ کھولیں جائیں گے۔
یہاں کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ تعلیمی ادارے 50 فیصد بچوں کو بلائیں گے اور جن اسکولوں میں اگر ایکسٹرا کلاس رومز ہیں تو وہ کلاس کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل وفاقی وزیر تعلیم نے اعلان کیا کہ ملک بھر میں تعلیمی ادارے 100 فیصد بچوں کو بلا سکتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ جاری کردہ ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد بھی کرایا جائے۔
سعید غنی نے کہا کہ ہمیں وفاقی وزیر تعلیم کی یہ بات سمجھ سے بالاتر لگ رہی ہے کہ ایک جانب وہ 100 فیصد بچوں کو بلانے کی بات کررہے ہیں تو دوسری جانب ایس او پیز کی بات بھی کررہے ہیں تو کسی طرح فاصلے کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔