کراچی سے لے کر اسلام آباد تک وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے سیاسی بحران جنم لے چکا ہے۔ آج وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اعلان کیا ہے کہ میں اور امین الحق وزارتوں سے مستعفی ہو رہے ہیں۔
ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہوگا جب متحدہ کے 2 وزراء نے ایک ساتھ استعفے دینے کا اعلان کیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا حصہ بن کر متحدہ واقعی حکومت کا ساتھ چھوڑنے والی ہے؟ کیونکہ ایم کیو ایم تاریخ میں ایسا پہلی بار کرے گی۔
تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ
رواں ماہ کے آغاز پر اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پہلے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں اور بعد ازاں اسمبلی میں اسپیکر کے روبرو جمع کرائی۔ تحریک جمع کرائے جانے کے بعد سے ہی متحدہ رہنماؤں کے بیانات حکومت کے خلاف رہے۔
قومی اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 342 ہے جبکہ عمران خان کو وزیر اعظم برقرار رہنے کیلئے کم از کم 172 اراکین کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔ یہی اکثریت اگر اپوزیشن کے حق میں ووٹ دے دے تو وزارتِ عظمیٰ سے محرومی مقدر بن سکتی ہے۔
گزشتہ روز کی گہما گہمی
رات گئے اپوزیشن رہنماؤں بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ لاجز میں متحدہ رہنماؤں سے ملاقات کی جس کے دوران تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔
ایم کیو ایم آج سہ پہر کے وقت مشترکہ پریس کانفرنس کرے گی جبکہ اس سے قبل متحدہ کے وفد کی وزیر اعظم سے بھی ملاقات ہوگی جس سے قبل ہی دو وفاقی وزراء فروغ نسیم اور امین الحق کا استعفے دینے کا اعلان سامنے آیا ہے۔
ماضی کے اتحاد اور ایم کیو ایم
دسمبر 2008 میں متحدہ نے مخلوط حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تاہم جنوری 2019 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی متحدہ کے مرکز پہنچ گئے جس کے بعد متحدہ حکومت میں واپس آگئی تھی۔
بعد ازاں جون 2011 میں متحدہ نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان تو کیا تاہم استعفے منظور نہ ہوسکے۔ اس کے باوجود ان کے محکمے دیگر وزرا کے حوالے کردئیے گئے۔ اس طرح متحدہ کم و بیش 3 ماہ تک وفاقی و صوبائی حکومتوں سے دور رہی۔
اس وقت صوبہ سندھ کے گورنر عشرت العباد بھی متحدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی استعفیٰ تو دیا مگر وہ منظور نہ ہوسکا۔ تیسری بار متحدہ فروری 2013 میں انتخابات سے کم و بیش 2 ماہ قبل پی پی پی کی حکومت سے علیحدہ ہوئی تھی۔
اس کے بعد متحدہ نے 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 25 جبکہ سندھ کی 51 نشستیں جیتیں۔ پی پی پی نے صوبائی حکومت میں اتحاد قائم کرنے کی دعوت دی تاہم ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
مئی 2014 میں اچانک متحدہ پی پی پی کے ساتھ ہی مخلوط حکومت کا حصہ بنی تاہم ساڑھے 4 ماہ بعد ہی اس حکومت سے بھی علیحدہ ہوگئی۔ فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ 2002 سے دیکھ رہا ہوں، حکومت کا حصہ بننے کے فیصلے اوپر سے ہی ہوتے آئے ہیں۔