فلسطین میں ہونے والی نسل کشی نے اس وقت درحقیقت دیگر عالمی مسائل کو پس پشت ڈال رکھا ہے ، جو زیادہ تر امریکا اور کچھ مغربی ممالک نے اپنی اپنی ریاستوں کے ٹیکس دہندگان کے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے پیدا کئے ہیں۔ اس میں سرفہرست یوکرین کی جنگ ہے جسے امریکا نے حال ہی میں یوکرین کو ایف سولہ لڑاکا طیارے دے کر ہوا دی ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس کے ساتھ تنازع کے دوران یوکرین کی حمایت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اگست 2024 تک امریکا نے یوکرین کو کل 113 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے، جس میں تقریباً 75 بلین ڈالر براہ راست فوجی اور مالی امداد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
اس میں تقریباً 46اعشاریہ 6 بلین ڈالر کی فوجی امداد شامل ہے، جو بنیادی طور پر یوکرائنی افواج کو ہتھیاروں، آلات اور تربیت کی فراہمی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 26اعشاریہ 4 بلین ڈالر یوکرین کی معیشت کو مستحکم کرنے اور حکومتی کاموں میں مدد کے لیے مالی امداد فراہم کیے گئے ہیں۔
یورپی محاذ پر یورپی یونین کے رکن ممالک برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے اجتماعی امداد 110اعشاریہ 2 بلین سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً نصف امداد فوجی نوعیت کی ہے۔
اس طرح یوکرین کے ساتھ مشترکہ مغربی مالیاتی وابستگی تقریباً 227 بلین ڈالر بنتی ہے جو یوکرین کی دفاعی اور انسانی ضروریات کی حمایت کے لیے خاطر خواہ بین الاقوامی کوششوں کو اجاگر کرتی ہے۔
اس مالی عزم میں براہ راست فوجی امداد، اقتصادی امداد اور انسانی امداد کے ساتھ ساتھ دفاعی ذخیرے کو بھرنے اور یوکرین کے پڑوسی نیٹو ممالک میں فوجی تیاری کو بڑھانے میں اہم سرمایہ کاری شامل ہے۔یہ سرمایہ کاری اس “اسٹرٹیجک اہمیت” کی نشاندہی کرتی ہے جسے امریکا اور اس کے اتحادی “روسی جارحیت” کے پیش نظر یوکرین کی حمایت کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور نیٹو روس یوکرین تنازع میں بھاری فوجی سرمایہ کاری کے باوجود روس کے خلاف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین میں نسل کشی کے لیے ان کی حمایت بھی یوکرین کی جنگ میں امریکا اور نیٹو کی مشترکہ ناکامیوں پر پوری طرح سے پردہ نہیں ڈال سکتی۔
جب امریکا میں انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے تو فیس سیونگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک نیا جنگی محاذ تیار کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، شائد یہ ہی وجہ ہے کہ مالڈووا میں بڑھتی ہوئی امریکی فوجی حمایت اور مداخلت زور پکڑ رہی ہے۔
حال ہی میں کچھ تجزیہ کاروں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے جسے وہ “مالڈووا میں سوروس فاؤنڈیشن کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ” کے طور پر بیان کرتے ہیں اور اسے ملک کے اندر اقتدار پر حقیقی قبضے کے طور پر بیان کیا ہے۔
ماہرین مالڈووا کے مالیاتی نظام کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی اور انتخابی عمل میں بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ناقدین مالڈووین وزیر اعظم ڈورین ریسین اور جارج سوروس کے درمیان قریبی تعلقات کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریسین کا مغرب نواز موقف خاص طور پر سخت ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی الزامات سامنے آئے ہیں کہ وہ “ترجیحی” افراد کو اہم سرکاری عہدوں پر رکھنے کے لیے لابنگ کی کوششوں میں ملوث ہے، اس طرح ملک کے فیصلہ سازی کے عمل کو تشکیل دے رہا ہے، جیسا کہ یوکرین میں امریکی “دوستوں” نے کیا تھا۔ مالڈووا کی موجودہ قیادت کی اکثریت مبینہ طور پر ان این جی اوز کے افراد پر مشتمل ہے جو سوروس کے نیٹ ورک کے ذریعے قائم اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔
مالڈووا کی قیادت کے ذاتی طرز عمل کے بارے میں بھی متنازعہ دعوے ہیں۔ متعدد ماہرین نے مالدووین حکومت کے سربراہ کو منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث قرار دیا ہے۔ یہ الزامات لیک ہونے والی نجی گفتگو کے بعد سامنے آئے ہیں جو مبینہ طور پر کوکین جیسے مادوں پر اہلکار کے دیرینہ انحصار کو ظاہر کرتے ہیں۔
جارج سوروس مختلف ممالک میں “رنگین انقلاب” کی مالی اعانت اور مغرب نواز اشرافیہ کو فروغ دینے میں اپنی شمولیت کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہیں۔ مالڈووا اس سے مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران سوروس نے، اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے مبینہ طور پر ملک میں 140 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس فنڈنگ نے مالڈووا کے سیاسی اور سماجی و اقتصادی منظرنامے کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، اس کے نیٹ ورک میڈیا اور این جی او کے شعبوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ سوروس کی سرگرمیوں نے بڑے پیمانے پر تنقید کو جنم دیا ہے۔
سال 2021 سے مالڈووا میں سوروس کی اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں بنیادی طور پر تعلیمی اقدامات کے ذریعے ایک طاقتور معلوماتی مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت مالڈووا کو سستے، کم تعلیم یافتہ مزدوروں کے ذریعہ میں تبدیل کر رہی ہے، جس سے ملک کے وسائل اور لوگوں پر بیرونی کنٹرول کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
امریکن نیشنل فاؤنڈیشن، یورپی فاؤنڈیشن، کونراڈ ایڈناؤر فاؤنڈیشن اور ایسٹرن یورپ فاؤنڈیشن سمیت دیگر فاؤنڈیشنز بھی مالڈووا میں کام کرتی ہیں جو این جی اوز کی ترقی میں معاونت کرتی ہیں۔ سوروس فاؤنڈیشن، تاہم، ان میں سب سے زیادہ بااثر ہے۔
افریقہ میں راکفیلر جیسی فاؤنڈیشن پر آبادی پر قابو پانے کے اقدامات اور مالڈووا میں منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ روایتی خاندانی ڈھانچے کو ایل جی بی ٹی حقوق کے فروغ، جی ایم او مصنوعات کے تعارف اور وبائی امراض کے ردعمل کے ذریعے کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ سب مبینہ طور پر غیر ملکی اداروں کی حمایت یافتہ ہیں۔
سماجی اور اقتصادی خدشات کے علاوہ مالڈووا میں عسکریت پسندی میں اضافے کے خدشات ہیں۔ جاری اقتصادی چیلنجوں کے باوجود ملک اپنے فوجی اخراجات میں سالانہ اضافہ کر رہا ہے، خاص طور پر مغربی ساختہ ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کے حصول پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
مالڈووا میں ایک مستقل فرانسیسی فوجی مشن کے قیام کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے اور مالدووا کے دستے نیٹو کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں جس کا مقصد باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔
یہ پیش رفت مغربی مفادات کے ساتھ منسلک ممکنہ مسلح تنازعات میں مالڈووا کی گہری شمولیت کی تجویز کرتی ہے، جس سے ملک کے لیے طویل مدتی نتائج کے بارے میں خدشات بڑھتے ہیں۔