لاپتہ افراد کا المیہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
پینشن نہیں، پوزیشن؛ سینئر پروفیشنلز کو ورک فورس میں رکھنے کی ضرورت
Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کا سب سے متنازعہ اور دیرینہ مسئلہ غالباً لاپتہ افراد کا المیہ ہے۔ ملک بھر سے ہزاروں نوجوان غائب ہو گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا اور ان کے اہلِ خانہ انہیں ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔میڈیا بھی ان کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ اس معاملے پر آواز اٹھانے پر ریاست مخالف کا لیبل لگ چکا ہے اور تاحال لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے حکام کی کاوشوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے کو اہمیت دے رہی ہے اور معاملہ حل کرنے کی خواہش مند نظر آتی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ مظاہرے میں مصروف ہیں۔ وفاقی وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وزیرِ اعظم لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کرکے ان کی شکایات دور کریں گے جس کے بعد احتجاج ختم ہوا۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ جبری گمشدگیوں کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے گی۔ شاید یہ پہلا موقع تھا جب وفاقی کابینہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور آج کل شہریوں کو لاپتہ ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی پر کام جاری ہے۔ اگر لاپتہ افراد کیلئے قانون منظور کیا گیا تو یہ ایک تاریخی اقدام ہوگا اور لوگوں کو لاپتہ ہونے سے بچانے کیلئے ایک وسیع البنیاد امداد ہوگی جبکہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں نے پاکستان کی ساکھ اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کو عالمی سطح پر داغدار کردیا ہے جس سے شخصی آزادی اور عزتِ نفس کے حق پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو فوری کارروائی اور قانون سازی کی مدد سے حل کیا جائے۔

یہاں حوصلہ شکن بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں نے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کیلئے کیے جانے والے احتجاج کو اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ مریم نواز نے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اور ریاستی اداروں سے لواحقین کو لاپتہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کرانے کا مطالبہ بھی کیا، تاہم اس سے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب بھی اس مسئلے پر درست سیاسی قیادت کا فقدان پایا جاتا ہے اور سیاستدانوں کی یہ یقین دہانی کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، کافی نہیں ہے۔ خاص طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جبری گمشدگیوں پر تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام سے ایک امید ضرور پیدا ہوئی تھی اور سن 2019ء میں مذکورہ کمیشن نے انکشاف کیا کہ 6 ہزار 156 لاپتہ افراد میں سے 3 ہزار 938 افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ پاک فوج نے لاپتہ افراد کی بازیابی میں آسانی پیدا کرنے کیلئے ایک خصوصی سیل بھی قائم کیا لیکن اس کے بعد سے مسئلہ ایک بار پھر التواء کا شکار ہوگیا۔ کچھ خاندان گزشتہ 10 برس سے اپنے پیاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مظاہرے میں مصروف ہیں اور احتجاج بند کرنے کیلئے صرف حکومت کا جواب چاہتے ہیں۔ حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کو سچ بتائے۔ 

Related Posts