دبئی میں باورچی بننے کی امید، لاپتہ بھارتی خاتون 20 سال بعد پاکستان سے برآمد

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دبئی میں باورچی بننے کی امید، لاپتہ بھارتی خاتون 20 سال بعد پاکستان سے برآمد
دبئی میں باورچی بننے کی امید، لاپتہ بھارتی خاتون 20 سال بعد پاکستان سے برآمد

بھارتی خاتون کو باورچی بنانے کی امید دلا کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ لاپتہ خاتون 20 سال بعد کراچی سے مل گئی ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو کی مدد سے اپنے پیاروں سے ملاقات کرادی گئی۔ 

تفصیلات کے مطابق حمیدہ بانو نے 2002 میں بھارت چھوڑ دیا تھا جب ایک ایجنٹ نے انہیں دبئی میں باورچی کی نوکری دلانے کا جھوٹا وعدہ کیا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں دھوکے سے دبئی کی بجائے پاکستان لایا گیا۔

  یہ بھی پڑھیں:

کامن ویلتھ گیمز، پاکستانی ریسلر نے سلور میڈل حاصل کرلیا

بھارتی شہر ممبئی میں حمیدہ بانو کے اہل خانہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہوں نے خاتون کو ڈھونڈنے کی کوشش میں 20 سال گزار دئیے اور آخر کار وہ دو مردوں کی وجہ سے ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے ایک کا تعلق بھارت جبکہ دوسرے کا پاکستان سے ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک تو ضرور ہیں تاہم ان کے مابین تعلقات آزادی کے وقت سے ہی کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے اکثر دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سرحد پار سے سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حمیدہ بانو مالی وسائل اور علم کی کمی کی وجہ سے بھی پریشان تھیں۔

برسہا برس گزر جانے کے باوجود بھی حمیدہ بانو نے کبھی اپنے بچوں سے ملنے کی تڑپ نہیں چھوڑی۔ آخر کار رواں برس جولائی میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ولی اللہ معروف نے ان کا انٹرویو کرکے ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی۔

حمیدہ بانو کراچی میں اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ممبئی کے خلفان شیخ نامی بھارتی صحاری نے اپنے فالوورز کے مابین خاتون کی ویڈیو شیئر کی جس کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ نے حمیدہ بانو کو ڈھونڈ نکالا۔ 

بعد ازاں دونوں افراد نے بانو اور اس کی بیٹی یاسمین شیخ کے درمیان ویڈیو کال کرنے میں مدد کی جس کے دوران حمیدہ بانو سے اہلِ خانہ نے سوال کیا کہ آپ کیسی ہیں؟ کیا آپ نے ہمیں پہچانا؟ آپ اتنے سال کہاں رہیں؟

خاتون حمیدہ بانو کا کہنا تھا کہ مجھ سے مت پوچھیں کہ میں کہاں تھی اور کیسی رہی۔ میں نے آپ سب کو بہت یاد کیا۔ یہاں اپنی مرضی سے نہیں رہ رہی تھی۔ میرے پاس یہاں رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

حمیدہ بانو کا انٹرویو 

انٹرویو کے دوران حمیدہ بانو کا کہنا تھا کہ میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد بھارت میں اپنے چار بچوں کی مالی معاونت کرتی تھی۔ ماضی میں دوحہ، قطر، دبئی اور سعودی عرب میں پریشان ہوئے بغیر باورچی کے طور پر کام کرچکی ہوں۔

سن 2002 میں ایک ریکروٹمنٹ ایجنٹ سے رابطہ ہوا۔ حمیدہ بانو کا کہنا ہے کہ مجھے 20 ہزار روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا تاہم وعدے کے مطابق دبئی لانے کی بجائے پاکستانی شہر حیدر آباد لے جا کر 3ماہ تک نظر بند کردیا گیا۔

بعد ازاں حمیدہ بانو نے ایک شخص سے شادی کر لی تاہم وہ شخص انتقال کرگیا اور حمیدہ بانو اپنے سوتیلے بیٹے کے ہمراہ رہنے لگیں۔ حمیدہ بانو کی بیٹی یاسمین کا کہنا ہے کہ میری والدہ بیرونِ ملک جا کر بھی باقاعدگی سے کال کیا کرتی تھیں۔

یاسمین کا کہنا ہے کہ 2002 میں والدہ کے فون کا مہینوں انتظار کیا اور بالآخر سفر کا انتظام کرنے والے ایجنٹ سے رابطہ کر لیا جس کا کہنا تھا کہ ہماری والدہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ ہم بار بار اس سے پوچھتے رہے اور وہ اچانک غائب ہوگیا۔ 

کراچی کی ایک مقامی مسجد کے امام معروف کہتے ہیں کہ وہ ان سے پہلی بار تقریباً 15 سال پہلے ملے تھے۔ میں انہیں بچپن سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ ہمیشہ پریشان دکھائی دیتی تھیں جبکہ امام مسجد سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہے۔ 

کئی سالوں سے معروف نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی خواتین کی مدد کے لیے کیا تھا – جنہیں پاکستان اسمگل کیا گیا ہو، ان کے خاندانوں کی ان خواتین سے ملاقات کرائی جاتی تھی۔

بھارتی خاتون حمیدہ بانو کے دوسرے شوہر کی موت کے بعد، وہ اکثر معروف کی والدہ سے کہتی تھیں کہ وہ انہیں بھی اپنی مدد کے لیے راضی کریں۔معروف کا کہنا ہے کہ میں حمیدہ بانو کے ساتھ ہمدردی تو رکھتا تھا لیکن پاک بھارت تعلقات کی وجہ سے ہچکچاہٹ تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ میرے دوستوں نے مجھے بھارت سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میں مشکل میں پڑ سکتا ہوں۔مجھے حمیدہ بانو کی مدد نہ کرنا اتنا برا لگا کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ میں لوگوں کی مدد کیلئے ان سے کوئی فیس نہیں لیتا۔ 

انٹرویو میں محترمہ بانو نے اپنے ممبئی کا پتہ اور اپنے بچوں کے نام بتائے تھے۔ویڈیو کو پہلی بار یاسمین کے بیٹے امان نے دیکھا اور یہ 18سالہ نوجوان اپنی دادی سے کبھی مل نہیں سکا تھا تاہم یاسمین نے ویڈیو دیکھ کر اپنی ماں کو پہچان لیا۔

معروف کا کہنا ہے کہ میں نے پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا ہے جبکہ بانو کو کیس کی تفصیلات کے ساتھ درخواست جمع کرانے کا کہا ہے تاکہ وطن واپسی کا عمل شروع کیاجاسکے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔

اس دوران حمیدہ بانو اپنی وطن واپسی کے دن گننے میں مصروف ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بچوں سے ملاقات کی امید کم و بیش کھو دی تھی۔ سرحد کے دونوں اطراف انسانی جذبات میں کوئی فرق نہیں۔ میں نے 20 سال تک انتظار کیا لیکن اب بہت خوش ہوں۔ یہ ایک عجیب احساس ہے۔ 

Related Posts