اقلیتی رہنماؤں کا کرسچن شادی و طلاق بل نافذ کرنے کا مطالبہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Minority leaders demand enactment of Christian Marriage and Divorce Bill

اسلام آباد : اقلیتی رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کرسچن میرج اینڈ طلاق بل کو فوری طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کروا کر قانونی شکل دی جائے۔

جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ فیملی لاز پاکستان میں بسنے والی مسیحی برادری کا حق ہے کیونکہ ڈیڑھ سو سال پرانے قوانین موجودہ دور میں فرد اور کنبہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے، نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن برائے منارٹیز رائٹس کے اراکین رومانہ بشیر، ڈاکٹر صابر مائیکل، شہزاد فرانسس و دیگر نے ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن برائے منارٹیز رائٹس نئی قانوں سازی کی ضرورت کے بارے میں آگاہی کا کام کر رہا ہے۔

وفاقی کابینہ نے 20 اگست 2019ء میں کرسچن میرج اینڈ طلاق بل 2019ء کے مسودے کی منظوری دی تھی جس سے ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا کرسچن طلاق ایکٹ 1869ء اور کرسچن میرج ایکٹ 1872ء منسوخ ہو جانا تھا، یہ مسودہ وزارت انسانی حقوق نے پاکستان کے بڑے چرچز سے مشاورت کے بعد تیار کیا تھا اور وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یقین دلایا تھا کہ جلدہی یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائیگا۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں اسلامو فوبیا کون ختم کریگا ؟

سرکاری تقاضے پورے کرنے کیلئے اس بل کو جانچنے اور اسکی قانونی زبان میں تشکیل کیلئے وزارت قانون و انساف کو بھجوایا گیا تاہم وزارت قانون و انصاف میں مشاورت کے متعدد دور ہونے کے باوجود 22 ماہ گزرنے کے بعد بھی مسودہ ابھی تک وزارت کے پاس ہی پڑا ہوا ہے۔

اقلیتی رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کرسچن میرج اینڈ طلاق بل 2021ء کو جلدازجلد منظور کرکے قانون کا حصہ بنایا جائے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ فیملی لاز پاکستان میں بسنے والی مسیحی برادری کا حق ہے کیونکہ ڈیڑھ سو سال پرانے قوانین موجودہ دور میں فرد اور کنبہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرسچن طلاق ایکٹ 1869ء اور کرسچن میرج ایکٹ 1872ء برطانوی حکمرانوں نے بنایاتھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی کا قانوں طلاق قانون کے تین سال بعد آیا تھا جبکہ ان قوانین کی بعض شقوں میں بہت ساری خامیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

Related Posts