قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے ، یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں ، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کےلئے رحمت قرار دیا گیا۔
اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے ، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں ، اورشاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو ، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے ، آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے ، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے ، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلووں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔
ان میںپہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا ، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پرستی کے یہ ایک انقلابی عقیدہ ہے ، خدا کا انکار انسان کو غیرذمہ دار ، گناہوں کے بارے میں جری اور مادہ پرست بنا دیتا ہے ؛ کیوںکہ اسے جواب دہی کا کوئی خوف نہیںہوتا اور دنیا اس کے لئے محض عشرت کدہ حیات ہوتی ہے ، گویا انسان خدا کی بندگی سے آزاد اور لذت و عیش کا غلام بن جاتا ہے ، شرک انسانیت کی تذلیل ہے ، کیوںکہ مشرک ادنیٰ سے ادنیٰ شءکے سامنے بھی پیشانی جھکانے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتا ، مشرک خدا کی بجائے مخلوق سے نفع و نقصان کی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے ، اس لئے اس میں توہم پرستی پیدا ہوتی ہے ، اسے قدم قدم پر نحس اور بے برکتی کے خطرات پریشان کرتے رہتے ہیں اور معمولی چیزوں کے خوف سے بھی اس کا دل بیٹھا رہتا ہے ، اللہ کے ایک ہونے کے تصور سے انسانیت کی تکریم اور اس کا اعزاز متعلق ہے ، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی پیشانی غیراللہ کے سامنے جھکنے سے ماورا ہے اور خدا نے اس کو پوری کائنات پر فضیلت بخشی ہے ، اسی لئے قرآن ہمیںبتاتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے بھی حضرت آدم کو سجدہ کرایا اور اس طرح انسانی کرامت و شرافت کو ظاہر فرما دیا۔
گو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیانے توحید کی تعلیم دی اور بہت سے مصلحین نے بھی شرک کی تردید و انکار کا فریضہ انجام دیا ، لیکن حضرت نوح سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک ہمیشہ انسانیت پر مشرکانہ فکر کا غلبہ رہا، یہاں تک کہ جو مذاہب توحید کا علم لے کر اٹھے ، وہ خود بھی شرک کے رنگ میں رنگ گئے ، یہودی اصلاً موحد تھے ، لیکن یہود کے بعض فرقوں نے حضرت عزیر کو خدا کا شریک قرار دیا ، عیسائیوں نے تو حضرت مسیح کی الوہیت کو اپنے عقیدہ کا بنیادی جز بنالیا ، ہندو مذہب میں بھی توحید کا عنصر موجود ہے ، مگر انھوں نے خود اپنے لاتعداد خدا تخلیق کر لئے ، بودھ مذہب کی بنیاد مذہب کے شارحین کے خیال کے مطابق خدا کے انکار پر ہے ، لیکن بودھ مذہب کے متبعین نے خود بودھ جی کی پرستش شروع کردی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی فکر کو اس طرح غالب فرمایا کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک غالب فکر بن گئی ، یہاں تک کہ جن مذاہب کی اساس شرک پر تھی ، ان میں بھی ایسی تحریکات اٹھیں جو توحید کی داعی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی وحدت کا تصور پیش کیا اور پیدائشی طورپر افضل وبرتر اور حقیر و کہتر ہونے کے تصور کو رد فرمادیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اعلان کیاکہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر محض رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی فضیلت نہیں ؛ بلکہ فضیلت کا معیار انسان کا تقویٰ اور اس کا عمل ہے ، اس اعلان نے عرب کے معزز قبائل اور حبش و روم کے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ و صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک صف میں کھڑا کردیا ، بلکہ یہ عجم نژاد غلام جو کبھی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، زعمائے عرب کےلئے وجہ رشک بن گئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے فرمانروا بھی انھیں اپنے ” سردار “ کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے ، یہ آپ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی تفریق و امتیاز کی زنجیریں کٹنے لگیں، انسانی مساوات کے نعرے ہرسو بلند ہوئے اور دنیا کی مظلوم و مقہور قوموں کو پیدائشی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی اور اگر کہیں کسی انسان گروہ نے اپنی شقاوت اور جور و جفا سے اس ظلم کے سلسلہ کو جاری بھی رکھا ، تو ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے الزام سننے پڑے اورمظلوموں کو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقعہ فراہم ہوا ، یہ آپ کی رحمت عامہ کا ایسا پہلو ہے کہ کوئی صاحب بصیرت اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اس وحدت انسانی کے تصورنے زندگی کی تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا ، تما م لوگوں کےلئے ہر طرح کے پیشہ کا دروازہ کھل گیا اور پیشوں کی تحقیر و تذلیل کا تصور ختم ہوا ، علم کی روشنی عام ہوئی اور ہر ایک کےلئے تعلیم کا دروازہ کھلا ، سماجی زندگی میں ہر ایک کےلئے باعزت طریقہ پر زندگی بسر کرنے کاموقع فراہم ہوا ، جرم و سزا کے باب میں انصاف کا قائم کرنا ممکن ہوا اور ہر ایک کے لئے اپنی تہذیب اور اپنی روایات کا تحفظ ممکن ہوا ، لیکن اس انسانی وحدت کے تصور نے سب سے زیادہ اثر سیاسی نظام پر ڈالا ، اسلام سے پہلے پوری دنیا کے سیاسی افق پر ملوکیت کا تصور چھایا ہوا تھا اور اس کے مقابلہ میںکوئی اور نظام سیاست عملاً موجود نہیں تھا ، ظہور اسلام کے وقت جتنی معلوم طاقتیں تھیں وہ سب ملوکیت کی نمائندہ تھیں،روم میں بادشاہت تھی ، ایران میں بادشاہت تھی ، حبش میں بادشاہت تھی ، یمن میں بادشاہت تھی ، غرض پوری دنیا بادشاہت کے آمرانہ نظام اور پنجہ استبداد کے تحت تھی ، یہاں تک کہ یونان کے فلاسفہ نے جس جمہوریت کا نقشہ پیش کیا تھا ، اس میں بھی ” اشراف “ کی حکومت کا تصور تھا اور عام لوگوں کے اقتدار میں شرکت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اسلام نے انسانی وحدت اور مساوات کا جو تصور پیش کیا اس نے محض خاندانی بنیاد پر حکومت و اقتدار کے ارتکاز اور فرمانروائی کے تصور کو پاش پاش کردیا اور جمہوریت کے تصور نے غلبہ حاصل کیا ، چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری نظام قائم ہے جو اسلام کے تصور خلافت سے مستعار اور اپنی بعض خامیوں کے باوجود انسانی وحدت و مساوات کا علمبردار ہے ، یہا ںتک کہ آج یا تو بادشاہت کا وجود ہی نہیں ، یا ہے تو محض دستوری اور علامتی بادشاہت ہے ، اور اگر کہیں جبراً آمرانہ ملوکیت باقی ہے تو وہ پوری دنیا کی نگاہ میں قابل تحقیر اورلائق ملامت ہے۔
رحمت نبوی کا تیسرا اہم پہلو علم کی حوصلہ افزائی ہے ، آپ جس سماج میں تشریف لائے وہاں لوگ اس بات کو سرمایہ افتخار سمجھتے تھے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ، وہ بہت ہی فخر کے ساتھ اپنے ”امّی “ ہونے کی بات کہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تعلم کی حوصلہ افزائی فرمائی اور علم کو بلا امتیاز و تفریق ہر طبقہ کےلئے عام فرمایا ، پھر آپ نے علم کے معاملہ میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں کی ، بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو خداسے اس کےلئے دعافرمائی اور فرمایا کہ علم و حکمت کی جو بات جہاں سے مل جائے ، اس کی طرف ایسا لپکنا چاہیے، جیسے انسان اپنی گم شدہ چیز کےلئے لپکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے بچوں کو بدر کے مشرک قیدیوں سے تعلیم ولائی اورمدینہ میں یہودیوں کی درس گاہ ” بیت المدراس “ میں تشریف لے گئے ، جس سے علم کے باب میں آپ کی فراخ قلبی اور کشادہ چشمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ علم کا دور دورہ ہوا ، بلکہ غیر سائنٹفک کی جگہ سائنٹفک فکر کا غلبہ ہوا اور توہمات کی زنجیریں کٹیں ، شرک چوںکہ مخلوقات کو معبود کا درجہ دیتا ہے اور جو معبود ہو اس کی عظمت اور اس کا احترام تحقیق و تجسس میں مانع بن جاتا ہے ؛ اس لئے وہ علمی ترقی اور تحقیق وسائنس کے ارتقا میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اسلام سے پہلے اہل مذاہب نے دین اور دنیا کا بٹوارا کر رکھا تھا اور دین و دنیا کی اس تقسیم نے قانون فطرت کے خلاف بغاوت کر رکھی تھی ، نکاح کو بری بات سمجھا جاتا تھا ، قرب خداوندی کے لئے تجرد کی زندگی ضروری سمجھی جاتی تھی اور مرد و عورت کے فطرت تعلق کو بہرصورت گناہ باور کیا جاتا تھا ، کسب معاش کی محنتوں کو دین الٰہی اور رضائے خداوندی کے خلاف گمان کیا جاتا تھا ، یہا ںتک کہ رہبانیت کے غلبہ کا عیسائیت میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ لوگ نہانے ، دھونے ، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو استعمال کرنے کو بھی للہیت کے خلاف سمجھتے تھے اور دسیوں سال غسل سے مجتنب رہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا ایک اہم بات رہبانیت کے اس تصور کا خاتمہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حدود میں رہتے ہوئے دنیا سے نفع اٹھانا بھی دین کا ایک حصہ ہے۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عامہ کے وہ پہلو ہیں ، جنھو ںنے انسانی تاریخ پر گہرے اور دور رس اثرات ڈالے ہیں ، جن کے ذریعہ انسانی کرامت و شرافت بحال ہوئی ، جن کی وجہ سے انسانیت عدل و مساوات اور اخوت و بھائی چارگی کی نعمت سے سرفراز ہوئی اورتفریق کی مصنوعی دیواریں جن کی وجہ سے زمین بوس ہوئیں ، جن کے باعث انسان نے اوہام کے بجائے عقل و خرد سے کام لینا سیکھا ، اور ان میں علم و تحقیق کا حوصلہ پیدا ہوا جس نے انسان کو معتدل ، متوازن ، قانونِ فطرت سے ہم آہنگ اور تمام انسانی ضروریات کو پوری کرنے والا نظام حیات عطا کیا۔