حادثات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں جمعہ کے روزکورنگی مہران سیکٹر بی میں واقع کیمیکل فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی کے نتیجے میں سگے بھائیوں سمیت 17محنت کش زندہ جل گئے،علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ آگ کو بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں جس کے باعث آگ پھیل گئی۔

جس وقت آگ لگی ملازمین کی بڑی تعداد فیکٹری میں موجود تھی تاہم گراؤنڈ فلور پر موجود ملازمین بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پہلی اور دوسری منزل کے ملازمین ہنگامی اخراج نہ ہونے کے باعث فیکٹری سے باہر نکل نہ پائے اور جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔

کراچی میں اس سے پہلے بھی فیکٹریوں میں آتشزدگی واقعات میں سیکڑوں  قیمتیں جانیں ضائع ہوچکی ہیں لیکن شہر کے انتظامی ادارے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات پر تیار نظر نہیں آتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حادثات کو روکنا ایک کٹھن کام ہے لیکن حادثے کے بعد نقصان کو کم کرنا ضرور ممکن ہے لیکن اس حادثے میں بھی انتظامی سطح پر کئی خامیاں دیکھنے میں آئیں۔

آگ فیکٹری کی پہلی منزل پر لگی تھی اور وہاں پر موجود ملازمین جان بچانے کے لئے دوسری منزل پر بھاگے جبکہ دوسری منزل پر موجود ملازمین جان بچانے کے لئے چھت پر گئے تو وہاں پر دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔آگ کو بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں جس کے باعث آگ پھیل گئی۔

تنگ گلیوں کےباعث ریسکیو اداروں کو امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،آگ لگنے کےدوران فیکٹری کے دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں،چھت کا دروازہ بھی بند تھا، فیکٹری میں موجود عملہ اس قدر اناڑی تھا کہ وہ سیفٹی سامان کو بھی بر وقت استعمال نہیں کر سکا۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کاکہا کہ رہائشی علاقے میں فیکٹریاں بننا انتظامیہ کی غفلت ہے، یہ فیکٹریاں کئی دہائیوں سے اس علاقے میں قائم ہیں، فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات یقینی نہ بنانا مالکان کی غفلت ہے، چیف فائر آفیسر کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے اندر آنے اور باہر جانے کیلئے ایک ہی راستہ تھا، مزدوروں کو باہر نکلنے کا راستہ ہی نہیں ملا جبکہ واقعہ کی اطلاع ملنے کے باوجود علاقہ پولیس انتہائی قریب ہونے کے باوجود تاخیر سے پہنچی۔

فیکٹری میں لگنے والی آگ کے دوران دلخراش مناظر دیکھنے میں آئے، آگ کی جگہ سے بعض ملازمین ایک چھوٹے روشن دان کے پاس سے چیخ رہے تھے مگر انہیں نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

مہران ٹاؤن حادثے کے بعد سامنے آنے والے یہ چند حقائق انتظامی غفلت اور لاپرواہی کو ظاہر کرتے ہیں، اس حادثے میں قیمتیں جانوں کوبچایا جاسکتا تھا لیکن فیکٹری مالکان نے مزدوروں کی زندگیوں سے زیادہ سامان کی چوری روکنے کو ترجیح دیتے ہوئے کھڑکیاں اور چھت کا راستہ بند کررکھا تھا جبکہ فیکٹری کے مزدوروں اور انتظامیہ کو آگ بجھانے کے آلات کے استعمال کا بھی علم نہیں تھا لیکن سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے جس پر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی معترض ہیں کہ رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں کیسے قائم ہوئیں اور مسلسل حادثات کے باوجود شہری انتظامیہ اور فیکٹری مالکان کیونکر انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے اقدامات نہیں کرپارہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد تاحال حکومت کی جانب سے فیکٹریوں  میں انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریوں کو مختص جگہوں پر منتقل کرے اور فیکٹریوں اور تمام اداروں میں آتشزدگی اور دیگر حادثات سے بچاؤ اور نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں اورفیکٹری مالکان کو آگ سے بچاؤ کے اقدامات کا پابند بنایا جائے۔

واقعہ میں غفلت و لاپرواہی برتنے والوں کا تعین کرکے سخت سزاء دی جائے اور مانیٹرنگ کا نظام سخت کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی غفلت اور لاپرواہی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب نہ بن سکے۔

Related Posts