کراچی :ضلع وسطی کی انتظامیہ نے کرپشن کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ، ضلع وسطی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر Iنے ریستوران اور پکوان سینٹرز کو نشانے پر لے لیا۔تجاوزات کے نام پر مبینہ بھتہ وصولی کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
ضلع وسطی کی جانب سے غیر متعلقہ اشخاص اور عملے کی5 رکنی ٹیم میدان میں اتار دی ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر Iکمال حکیم کے دستخط سے ہوٹلوں اور پکوان سینٹرز کے مالکان کو طلب کرنے کا نوٹس دینے لگے ۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جب طلب کردہ مالکان کمال حکیم سے ملنے جاتے ہیں تو ان سےعملے کے ملازمین مبینہ طور پربھتہ طلب کرتے ہیں، ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی دوکان سے باہر سامان یا اپنا کاؤنٹر رکھتے ہیں اس لیے اگر رقم ادا نہیں کی تو سامان ضبط کر کے فرش توڑ دیا جائے گا۔
اس کھیل میں ڈی سی سینٹرل آفس کا سینئر کلرک اور ریکارڈر” اے ڈی سی”(I) عرفان علی سر فہرست ہے جو مبینہ جوڑ توڑ کرتا ہے ، دوسرے نمبر جو شخص اے ڈی سی (I) کے لیے خصوصی طور پر ڈی سی آفس سینٹرل میں غیر قانونی امور انجام دے رہا ہے وہ بیوروآف سپلائی حکومت سندھ کا ملاز م شمس ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شمس کا ڈی سی آفس میں کوئی کام نہیں ہے تاہم بھتہ خور ٹیم کا حصہ بننے کے لیے کمال حکیم نے اسے خصوصی طور پر یہاں رکھا ہوا ہے جبکہ توصیف نام کا شخص مکمل طور پر غیر متعلقہ اور غیر سرکاری شخص ہے جسے اے ڈی سی( I) کمال حکیم نے اس ٹیم میں غیر قانونی کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے ۔
اس پرائیویٹ شخص کا ڈی سی آفس میں ہونا بھی غیر قانونی ہے اور ان کے ساتھ پانچواں رکن کلرک نفیس احمد ہے جو اس سے قبل غیر قانونی بچت بازاروں کی سرپرستی بھی” اے ڈی سی”(I) کی نگرانی میں کیا کرتا تھا۔
عید الاضحی کے بعد سے پکوان سینٹرز اور ریستوران کو مذکورہ نوٹس دیے جا رہے ہیں تاہم ان میں سے اب تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے بلکہ بھاری نذرانے وصول کیے جا رہے ہیں۔
مورخہ 10 اگست 2020 کواے ڈی سی Iکمال حکیم کے دستخط سے نیو کوئٹہ حاجی بسم اللہ ہوٹل کے نام بھی ایسا ہی نوٹس دیا گیا تھا اور اسے 12 اگست کو طلب کیا گیا ہے۔
اس سے قبل اعجازپکوان، حاجی اخترکیٹرنگ اور دیگر درجنوں پکوان سینٹرز سے مک مکا کیا جا چکا ہے ، انہیں بلا کر کہا جاتا ہے کہ یہ خود تھڑاتوڑ دو یا سامان اندر رکھو ورنہ ہم ضبط کر لیں گے۔
اپنے چلتے کاروبارکو برباد ہونے سے بچانے کے لیے جب متاثرین تیسرا حل پوچھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ صاحب بہت سخت ہیں مگر کام ہو جائے گا اور 20تا 50 ہزار طلب کیا جاتا ہے ۔
جوڑ توڑ کے بعد مطلوبہ رقم لے کر انہیں اس تجاوزات کی زبانی اجازت دے دی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں:اشتہارات کی مد میں کرپشن، ڈی ایم سیز محکمہ آوٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ کے افسران کی موجیں