ماریہ بی ایک بار پھر ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف میدان میں آگئیں

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

معروف پاکستانی فیشن ڈیزائنر ماریہ بی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے بارے میں اپنے متنازعہ خیالات کی وجہ سے اکثر خبروں میں رہتی ہیں۔

حال ہی میں خواجہ سرائوں کے حقوق سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

ٹرانس جینڈر رائٹس کی ڈائریکٹر نایاب علی اور صارم عمران نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ایک پوری کمیونٹی کے شناخت کے حقوق سے انکار کیا لہٰذا سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

 درخواست گزار کا کہنا ہے کہ قانون سازی کمیونٹی کے اتفاق رائے کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ قانون منتخب نمائندوں کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

واضح رہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ٹرانس جینڈر ایکٹ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے ، نہ ہی خود کو مرد یا عورت کہلوا سکتے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 اور 3 کو اسلامی تعلیمات کے خلاف جبکہ ٹرانسجینڈرز پروٹیکشن ایکٹ کی سیکشن 7 کو بھی خلاف اسلام و شریعت قرار دیا تھا۔

تاہم، اس تمام معاملے پر فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کا ردعمل آیا ہے، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ شریعت کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اللہ نے صرف دو جنس پیدا کی ہیں مرد اور عورت۔ اس فیصلے کو کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور یہ ہمارے خاندانی سسٹم پر، مذہب اور بچوں کے مستقبل پر حملہ ہے۔

ماریہ بی کو اس بیان کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔