فیشن ڈیزائنرماریہ بی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی یونیورسٹیوں میں بائیولوجیکل مردوں کو داخلہ دیا جا رہا ہے جس سے یہ درسگاہیں خواتین کیلئے محفوظ نہیں رہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا کہ ’خواتین کے باتھ رومز پر اب بائیولوجیکل آدمی حملہ کر رہے ہیں جو خود کو خواتین کی طرح محسوس کرتے ہیں۔‘
(ایکس وائی کروموسوم رکھنے والے شخص میں عام طور پر مردانہ جنسی اور تولیدی اعضاء ہوتے ہیں ، اسی لیے اور انہین حیاتیاتی طور پر مرد کی جنس تفویض کی جاتی ہے)۔
فیشن ڈیزائنرنے ماضی کی طرح ایک بار پھربظاہر ٹرانس جینڈر مخالف خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ کے آغاز سے ہی اس کی مخالفت کرنے والی ماریہ بی نے گزشتہ سال بھی ایک ویڈیو میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ، 2018 کے بارے میں بات کی تھی ، انہوں نے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی طرح اس بل کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔
ماریہ بی بنے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد ٹرانس جینڈر رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان (ٹی آر سی ٹی) کی ڈائریکٹر نایاب علی کی پریس کانفرنس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
فیشن ڈیزائنر نے الزام عائد کیا کہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں، خاص طور پر عورت مارچ اور مذہبی جماعتوں نے ”ہماری جگہوں“ میں خواجہ سراؤں کے حملے کے خلاف آواز نہ اٹھا کر خواتین کے محفوظ مقامات کے حق کو پامال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک قدامت پسند معاشرے میں رہتے ہیں جہاں والدین اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی آڑ میں بائیولوجیکل مردوں کو خواتین کی یونیورسٹیوں میں داخل ہونے پر مجبور کرناان کی تعلیم کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔
ٹرانس لوگوں اور ان کی حالت زار کے خلاف آواز بلند کرنے والی ڈیزائنر نے مزید کہا کہ والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا شروع کردیں گے کیونکہ ”یونیورسٹیوں میں مرد خواتین ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں“۔
ماریہ بی نے خواتین کے حقوق کے لئے کھڑے نہ ہونے اور ان کی آوازبند کرنے کے لیے خواتین تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہو نے مزید کہا کہ، ’خواتین کے کالجوں میں ٹرانس جینڈر کے داخلے کو منع کریں۔ بائیولوجیکل مردوں کو مردوں کیلئے مختص کالجوں میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے‘۔