سیکورٹی اداروں کی تابڑ توڑ کارروائیاں، پشاور دھماکے میں ملوث ہونے کے شبہے میں متعدد ملزمان گرفتار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں ایک مسجد میں سوموار کوخودکش بم دھماکے میں ملوّث ہونے کے شُبے میں پولیس نے متعدد افراد کوگرفتارکرلیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے،وہ اس امکان سے انکار نہیں کرسکتے کہ حملہ آورکو سکیورٹی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے کوئی داخلی مدد حاصل تھی۔

پشاورمیں گذشتہ ایک دہائی میں ہونے والایہ سب سے مہلک بم حملہ تھا۔اس میں جاں بحق ہونے والے ایک سو سے زیادہ افراد میں تین کے علاوہ تمام پولیس اہلکار تھے۔اس طرح حالیہ تاریخ میں ایک ہی حملے میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

حملہ آورنے پیرکے روزاس وقت بم حملہ کیا جب سیکڑوں نمازی پولیس لائنزمیں واقع مسجد میں نمازِ ظہر اداکررہے تھے۔یہ مسجد پولیس اور ان کے اہل خانہ کے لیے انتہائی محفوظ علاقے میں واقع ہے۔

پشاور پولیس کے سربراہ اعجازخان نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ’’ہمیں کچھ سراغ ملے ہیں اوران کی بنیادپرہم نے کچھ بڑی گرفتاریاں کی ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ہم اندرونی مدد سے انکارنہیں کرسکتے لیکن چونکہ تحقیقات ابھی جاری ہیں،اس لیے میں مزید تفصیل شیئر نہیں کر سکوں گا‘‘۔

تفتیش کار،جن میں انسدادِ دہشت گردی اور انٹیلی جنس حکام شامل ہیں، اس بات پرتوجہ مرکوز کررہے ہیں کہ حملہ آور کس طرح ڈسٹرکٹ پولیس لائنزکی طرف جانے والی فوجی اورپولیس چوکیوں کو توڑنے میں کامیاب رہا۔یہ نوآبادیاتی دور کا ایک خود ساختہ کیمپ ہے،جہاں درمیانے اور نچلے گریڈوں کے پولیس اہلکار اوران کے اہل خانہ رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

تیل اور گیس کی بین الاقومی جاپانی کمپنی نے پاکستانی بزنس مین کو اپنا ایڈوائزر رکھ لیا

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاتھا کہ حملہ آورمسجدکے نماز ہال میں پہلی قطارمیں تھا جب اس نے حملہ کیا۔ صوبہ کے پی کے کے پولیس سربراہ معظم جاہ انصاری نے صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آور کی باقیات برآمد کر لی گئی ہیں۔ان کا مزید کہناتھاکہ’’ہماراماننا ہے کہ حملہ آورکوئی منظم گروپ نہیں ہیں‘‘۔

علاقے میں سرگرم جنگجو گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکیا ہے اوراس کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے ایک دھڑے کو بم حملے کاذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

دھماکے سے مسجد کی بالائی منزل منہدم ہوگئی تھی اوراس میں ایک سو سے زیادہ افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ستمبر 2013 میں آل سینٹس چرچ میں ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں کے بعد سے یہ پشاور میں سب سے مہلک حملہ تھا۔

Related Posts