وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک دہائی بعد کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافے کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ترسیلات زر 35 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
اسلام آباد میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے معاشی استحکام کی جانب پیش رفت پر روشنی ڈالی لیکن مڈل مینز کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مہنگائی میں کمی کے باوجود ضروری اشیاء کی قیمتیں کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے اس تضاد کی نشاندہی کی کہ جہاں عالمی منڈی میں مرغی، چنا اور ماش کی دال جیسی اشیاء کی قیمتیں کم ہوئیں، وہیں مقامی مارکیٹ میں ان کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ وزیر خزانہ نے اس صورتحال کا ذمہ دار منافع خوروں کو ٹھہرایا۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ نومبر میں دس سال بعد پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ ہوا جبکہ ترسیلات زر میں 35 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا حجم 9 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو معیشت پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے نیچے آ گئی ہے، جو کاروباری ماحول کے لیے حوصلہ افزا ہے۔
حکومت کی مہنگائی کم ہونے اور معاشی ترقی کے دعوؤں کے باوجود ضروری اشیاء کی قیمتیں بلند سطح پر قائم ہیں، جو صارفین کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پالیسی اقدامات اور زمینی حقائق کے درمیان عدم ہم آہنگی ہے۔
اگرچہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن یہ کمی اتنی زیادہ نہیں جتنی ظاہر کی گئی ہے اور اس کے فوائد صارفین تک مکمل طور پر نہیں پہنچ پا رہے۔
مڈل مین اور منافع خور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر قیمتیں برقرار رکھتے ہیں یا بڑھا دیتے ہیں حالانکہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، جیسا کہ مرغی، چنا، اور ماش کی دال کے معاملے میں دیکھا گیا۔
یہ منافع خوری کم مہنگائی کے اثرات کو زائل کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے صارفین کو مصنوعی طور پر بڑھائی گئی قیمتوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔