حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے سبق

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تمام اہلِ اسلام اس بات سے خوب واقف ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور اہم پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں ذکر فرمایا کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل کی جو اس سے قبل تورات کی تصدیق کرتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مسیحا کی حیثیت سے زمین پر واپس آئیں گے اور زمین کو خیر و برکت سے بھر دیں گے، نیز ہم آپ علیہ السلام کی زندگی سے کچھ اہم اسباق بھی سیکھ سکتے ہیں جن کا اطلاق اپنی زندگیوں پر کیا جاسکے۔

سب سے پہلا سبق تو یہ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے سیکھا جاسکتا ہے کہ انسان خود کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام سمجھے۔ سورۃ مریم کی آیات نمبر 30 تا 34 کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا تعارف کرانے کیلئے جھولے سے ہی خطاب کیا جو ان کا معجزہ تھا۔ارشاد ہوتا ہے کہ (عیسیٰ علیہ السلام نے) کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔اور مجھے با برکت بنایا ہے جہاں کہیں ہوں، اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی ہے جب تک میں زندہ ہوں۔اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرنے والا، اور مجھے سرکش بدبخت نہیں بنایا۔اور مجھ پر سلام ہے جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔یہ عیسٰی ابنِ مریم ہے، (یعنی وہ) حق بات جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں۔

دوسرا اہم سبق نازل شدہ صحیفوں یعنی الہامی کتابوں پر عمل کرنا ہے۔ سورۂ مریم کی مندرجہ بالا آیات میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیفہ اور نبوت عطا فرمائی۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمارے وقت میں نازل کردہ صحیفے یعنی قرآنِ پاک پر بھی عمل کریں اور اس سے برکتیں سمیٹیں۔ انبیاء کے طریقے پر عمل کرنا برکتیں حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔

اپنے مندرجہ بالا تعارف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کردہ نیک اعمال اور فرائض کو سرانجام دینا ہوگا جس میں نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ دینا شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے ماں کے رتبے کے متعلق بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اپنے تعارف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ نے انہیں اپنی والدہ مریم علیہا السلام کے ساتھ فرض شناس بنایا۔ ہماری زندگی میں ماں سے زیادہ اہمیت کسی انسان کی نہیں ہوتی اور کوئی دوسرا رشتہ اس سے زیادہ مقدس نہیں سمجھا جاتا۔ ایک حدیث میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں اور یہی بات 3 بار فرمائی اور چوتھی بار باپ کا ذکر فرمایا۔

ایک اور اہم سبق جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی بابرکت ہستی سے سیکھا جاسکتا ہے وہ حسنِ اخلاق ہے۔ سورۃ مریم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام متکبر یا والدہ کے نافرمان نہیں تھے بلکہ ان کی اطاعت فرماتے تھے۔ مسلمانوں کی اہم نشانی بھی حسنِ اخلاق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز نیک اعمال میں حسنِ اخلاق سے زیادہ کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی (سنن ترمذی)۔ غور کیا جائے تو لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام پر بہتان طرازی کرتے ہوئے نازیبا کلمات ادا کیے جن کا ایک بیٹا ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صبر و تحمل سے جواب دیا جس سے کسی کی تذلیل یا تضحیک نہیں ہوئی۔

روح اللہ کے لقب کے حامل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ اور طرزِ عمل سے تصدیق ہوتی ہے کہ سیدھے راستے پر چلنا آسان ترین ہوسکتا ہے۔ بس ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے جس کی ہم اطاعت کرتے ہیں اور یہی سیدھا راستہ ہے۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بہت سے ساتھی یا پیروکار نہیں تھے اور کم ہی لوگوں نے آپ کی تبلیغ پر لبیک کہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ انہیں ناکام کہا جائے۔ آپ علیہ السلام کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ پیروکاروں کی تعداد کو کامیابی کا پیمانہ نہیں بنایاجاسکتا۔ پیغمبر کاکام اللہ کے پیغام کو من و عن پہنچانا ہے۔ ہدایت دینا پروردگارِ عالم کا کام ہے۔ اصحاب کی کم تعداد کے باوجود تاریخ آج بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کے برگزیدہ ترین پیغمبروں میں سے ایک مانتی ہے۔

حق پر استقامت رکھنا بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم ترین سبق ہے۔ سچائی لوگوں کی تعداد پر منحصر نہیں جو اس پر یقین رکھتے ہوں، بلکہ اس کی بنیاد صرف اور صرف حقیقت پر ہوتی ہے۔

مسلمان قوم کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نجات دہندہ، ایک مصلح، مسیحا اور روح اللہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ اٹھا لیا۔ آپ بیماروں کا علاج کرسکتے تھے، مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرنا اور بے جان چیزوں میں روح پھونک دینا، یہ تمام تر معجزات آپ کے پیغمبر ہونے کی بڑی دلیل ثابت ہوئے۔ 

Related Posts