لاس اینجلس میں امیگریشن پالیسی کے خلاف ہنگامے، پولیس کا مظاہرین کو گھروں کو لوٹنے کا حکم

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

LA police order immigration protesters in downtown to go home
CNN

امریکی شہر لاس اینجلس میں  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف تیسرے روز بھی پرتشدد مظاہرے جاری رہے، پولیس نے مرکزی علاقے میں مظاہرین کو منتشر ہونے اور اپنے گھروں کو لوٹنے کا حکم دیدیا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے قومی محافظ فورس کو مظاہروں پر قابو پانے کے لیے تعینات کیا گیا جسے کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے غیر قانونی قرار دیا۔ اتوار کے روز یہ محافظ فورس وفاقی سرکاری عمارتوں کی نگرانی پر مامور رہی۔

یہ مظاہرے صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کے خلاف شدید احتجاج کی وجہ بن چکے ہیں جس کے تحت وہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے روزانہ تین ہزار سے زائد افراد کی گرفتاری کا ہدف امیگریشن اداروں کو دیا ہے اور ملک کی جنوبی سرحد کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔

کیلیفورنیا کے ریاستی و مقامی حکام جو اکثریتی طور پر حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، نے صدر پر الزام لگایا ہے کہ وہ ابتدا میں چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والے مظاہروں کو وفاقی طاقت کے ذریعے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ان مظاہرین کو ’باغی‘ قرار دے چکے ہیں۔

شہر کے مرکزی حصے میں خودکار گاڑیوں کی سروس فراہم کرنے والی کمپنی کی کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق بعض مظاہرین نے پتھر، بوتلیں اور دیگر اشیاء پولیس پر پھینکیں جس کے بعد مختلف اجتماعات کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور پھر یہ حکم پورے شہر کے مرکز پر نافذ کر دیا گیا۔

پولیس نے ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے گھڑسوار فورس کا استعمال کیا۔ ویڈیو مناظر میں مظاہرین کو پولیس پر نعرے لگاتے اور اشیاء پھینکتے دیکھا گیا۔ ایک گروپ نے مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا۔

 

پولیس چیف جم میکڈونل نے میڈیا کو بتایا کہ پُرامن احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن جو پرتشدد مناظر دیکھے گئے وہ قابلِ مذمت ہیں اور مظاہرے اب قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔

پولیس نے اتوار کو دس افراد جبکہ گزشتہ شب انتیس افراد کو گرفتار کیا، اور مزید گرفتاریاں جاری ہیں۔

گورنر گیون نیوسم نے صدر ٹرمپ سے قومی محافظ فورس کی تعیناتی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ صدر نے خود ان مظاہروں کی فضا پیدا کی ہے اور یہ ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

جب پولیس چیف سے پوچھا گیا کہ آیا قومی محافظ فورس کی ضرورت ہے تو انہوں نے فوری طور پر ایسا اقدام کرنے سے انکار کیا تاہم رات کے تشدد کو دیکھ کر انہوں نے صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا۔

صدر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پولیس چیف سے فورس تعینات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ “انہیں ابھی یہ قدم اٹھانا چاہیے، ان غنڈوں کو چھوٹ نہ دی جائے”۔

وائٹ ہاؤس نے گورنر نیوسم کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ “سب نے فساد، تشدد اور بدامنی کے مناظر دیکھے”۔

امریکی شمالی کمان کے مطابق، کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے تین سو اہلکار لاس اینجلس کے تین مختلف مقامات پر تعینات کیے گئے ہیں۔ داخلی سلامتی کی وزیر نے بتایا کہ یہ فورس پرامن مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حفاظت کے لیے تعینات کی گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر مظاہرین کو ’’پرتشدد اور بغاوت پر مبنی ہجوم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی کابینہ کو ہدایت دی ہے کہ “فسادات” روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔

Related Posts