سارہ شاہنواز امیر کے والد انعام الرحیم نے کہا ہے کہ مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو جلد از جلد نشان عبرت بنایا جاے، وکلا اور پولیس کے مطابق تمام ٹھوس شواہد موجود ہیں، اگر نور مقدم کے قاتل کو پھانسی دی گئی ہوتی توآج سارہ قتل نہ ہوتی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقتولہ سارہ انعام کے والد انجینئر انعام الرحیم نے کہا کہ شاہنواز سارہ سے وقتافوقتا پیسوں کا تقاضا کرتا تھا، وہ خود کسی روزگار یا کاروبار سے منسلک نہیں، اس نے بہلا پھسلا کر مالی طور پر انتہائی مستحکم میری بیٹی سے شادی کی اور اس سے پیسے بٹورتا رہا۔
نجینئر انعام الرحیم نے کہا کہ ہم قانونی ضابطے پورے کر رہے ہیں کہ سارہ کے ابوظہبی کے اکاونٹ سے حقائق حاصل کر سکیں۔ ایسے بے ایمان اور سفاک شخص کے خلاف سخت ترین اور فوری کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خاندان کے دیگر افراد میں بھائی چچا پھوپھا وغیرہ نے کہا کہ سارہ انتہائی قابل نیک اور اچھی انسان تھی، اس قدر قابل بچی کو اپنے شکنجے میں پھنسا کر ملزم نے چالاکی سے پیسے نکلوائے اور پھر اسے بے دردی سے قتل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام ایسا کیا جائے کہ مظلوموں کو جلد انصاف ملے۔ ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان نہ بنائے جانے کے سبب ہی یہ واقعات دہرائے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سارہ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی،
دوہزار میں ہم کینیڈا چلے گئے، سارہ پڑھائی میں قابل تھی، اس نے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔ سارہ نے یو بی ایل اور یو ایس ایڈ میں جاب کی، وہ ابوظہبی میں بھی جاب کرتی رہی۔
سارہ کے والد نے بتایا کہ شادی کے لیے رشتے آئے لیکن اس کی توجہ کیریئر پر تھی، جولائی کے آخری ہفتے میں معلوم ہوا کہ سارہ نے شادی کرلی ہے، ہمیں شادی کا معلوم ہوا تو شاک ہوئے۔
مقتولہ کے والد نے کہا کہ سارہ نے بتایا کہ وہ 38 سال کی ہے اور اپنا فیصلہ خود کرسکتی ہے، جس پر ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی، لڑکے کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے تھے مگر ایاز امیر کا بیٹا ہونے کا پتا چلا تو ہمارا اعتماد بحال ہوا۔