کراچی: کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان نے کراچی شہر میں اچانک امن و امان کے حوالے سے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت، پولیس اور رینجرز حکام پر زور دیا کہ وہ امن امان کی بگڑتی صورت حال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سخت سیکیورٹی اقدامات عمل میں لائیں تاکہ کراچی کے ہر گوشے اور کونے میںامن وسکون کو برقرار رکھا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ جمعے کے روز کورنگی کے علاقے میں پولیس کانسٹیبل کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد حالیہ مہینوں میں ٹارگٹ کلنگ کی لہر میں صوبائی دارلحکومت میں اب تک چھ پولیس اہلکار مارے جا چکے ہیں اور اس کے علاوہ شہر کے اہم ترین علاقوں میں ڈکیٹیوں اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جہاں شہریوں کو بلا خوف و خطر دن دہاڑے یا رات کی تاریکی میں گن پوائنٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے جبکہ ایسی وقوعہ جہاں جرائم کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں وہاں پولیس اور رینجرز اہلکار کہیں نظر نہیں آتے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی والے 2020کے آغاز سے ہی بری طرح مشکلات سے دوچار رہے ہیں کیونکہ پہلے تو انہیں کورونا وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے سلسلے میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے منفی اثرات اور اس کے بعد موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے شہری علاقوں میں سیلاب اور پورے انفرااسٹرکچر کی تباہی کو بھگتنا پڑا اور ان دنوں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے واقعات باعث خوف نے شہر بھر کو گرفت میں لے لیا ہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کو بڑی بے رحمی سے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ پریشان حال عوام کو نہ تو انفرااسٹرکچر اور نہ ہی سیکیورٹی کے حوالے سے ریلیف فراہم دینے کے لئے کو ئی ایک بھی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا ماسوائے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے فیصلہ سازوں کی جانب سے بیان بازی کے جو اُلٹ ثابت ہورہا ہے کیونکہ پورے نہ کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔
انھوں نے زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تکنیک اپناتے ہوئے جدید ترین آلات کو استعمال میں لانا ہوگا جبکہ شہر بھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد کو بھی بڑھانا ہوگا اور ہیلپ لائن نمبرز کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو بھی موثر بنانا ہوگا تاکہ اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث جرائم پیشہ عناصر سے بہتر طریقے سے نمٹا جاسکے ۔
روایتی پولیسنگ سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔تقریباً چھ ماہ کے عرصے تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی بے روزگار نوجوان مالی بحران باعث جرائم کی دنیا میں جا پہنچے ہیں لہذا یہ ضروری ہے کہ ایک ساتھ ہی اصلاح اور روک تھام دونوں پر توجہ دی جائے تاکہ ایک بہتر معاشرہ قائم کیا جاسکے۔ مجرمانہ سلوک پر قابو پانے میں کسی بھی قسم کی غفلت مجرمانہ غفلت ہے۔
2013کے کراچی آپریشن کی موثر حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں کراچی کے امن و امان میں واضع بہتری آئی اور کراچی آپریشن کے مقاصد حاصل ہوئے کیونکہ پولیس و رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے انتہائی فعال اور تیز تر نظر آئے کیونکہ سب ہی ادارے کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لئے بیتاب تھے تاہم ان دنوں ایسا لگ رہا ہے کہ امن و امان کے نگران دونوں ہی ادارے سست پڑ گئے ہیں جو اچھی علامت نہیں۔
انھوں نے سندھ حکومت، محکمہ پولیس اور پاکستان رینجرز کے حکام بالا پر زور دیا کہ سخت احکامات کے ساتھ ساتھ موثر حکمت عملی وضع کی جائے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے نہ صرف ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کے واقعات سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پایا جاسکے بلکہ پورے کراچی میں امن و سکون کو یقینی بنایا جاسکے جو اس شہر اور پورے ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
مزید پڑھیں:ملک بھر میں ریسٹورنٹ مالکان فوڈ پانڈا کی من مانیوں سے پریشان، بائیکاٹ کا امکان