جنگ اور خوف کے سائے! سرحد کے دونوں پار کشمیری عوام کی حالتِ زار

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
pakistan india pakistan
CNN

محمد اقبال اُس وقت ایک پاور پلانٹ میں نائٹ شفٹ پر کام کر رہے تھے جب ان کے گھر والوں نے گھبراہٹ بھرے فون پر اطلاع دی کہ ان کے علاقے میں شدید گولہ باری ہو رہی ہے۔

انہوں نے سی این این کو بتایاکہ میں نے سب سے کہا کہ وہ نچلی منزل پر ایک ہی کمرے میں جمع ہو جائیں اور دعا کریں کہ صبح تک حالات بہتر ہو جائیں۔

اگلی صبح سکون کا پیغام نہ لا سکی۔ گولہ باری اگلے چار دن تک جاری رہی، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان دہائیوں بعد سب سے شدید کشیدگی نے مکمل جنگ کے خدشات کو جنم دیا۔

اقبال، جن کی عمر 47 برس ہے، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ کے قریب رہتے ہیں، جو پاکستان کی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔

پہاڑوں اور سرسبز وادیوں میں گھرا یہ علاقہ بظاہر پرامن دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ دنیا کے سب سے زیادہ متنازع علاقوں میں سے ایک ہے، جس پر دونوں ممالک اپنا حق جتاتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے، دونوں جوہری طاقتوں نے ایک دوسرے پر میزائل، ڈرون اور توپ خانے سے حملے کیے۔ یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب پہلگام میں سیاحوں کے قتل عام کا واقعہ پیش آیا، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا، تاہم پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی۔

فائرنگ شروع ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد، اقبال کو اطلاع ملی کہ ان کے برادر نسبتی کے گھر پر گولہ آ گرا۔ یہ گولہ ایک پانی کی ٹینکی کے قریب پھٹا، جس کے نتیجے میں شیشے ٹوٹ کر ان کے رشتہ دار اور بھتیجی کو زخمی کر گئے۔

اس واقعے کے بعد ان کے گاؤں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جن لوگوں کے پاس گاڑیاں تھیں، انہوں نے زخمیوں کو قریبی اسپتال پہنچانے کی کوشش کی۔

اقبال نے کہاکہ کئی گھنٹوں تک کسی کو تلاش کرنا مشکل تھا۔ لوگ منتشر ہو گئے تھے۔ لیکن اسپتال میں بالآخر میرا خاندان اکٹھا ہو گیا۔

اسپتال میں ان کے برادر نسبتی شدید زخمی حالت میں تھے، جبکہ طبی عملہ زخمیوں کی بڑی تعداد کے باعث دباؤ کا شکار تھا۔ اقبال کے برادر نسبتی بچ گئے، لیکن ان کے دو پڑوسی جانبر نہ ہو سکے۔

تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اس متنازع خطے کے لیے یہ تازہ تصادم کسی سیاسی حل کو مزید پیچیدہ بناتا نظر آتا ہے۔تاہم یہاں کے عوام کے لیے فوری تشویش یہی ہےکہ آسمان کب تک خاموش رہے گا؟

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے قصبے اکھنور کے 25 سالہ عامر چوہدری نے سی این این کو بتایاکہ یہاں ایک غیر یقینی خاموشی ہے۔ بازار دوبارہ کھل چکے ہیں، اور کچھ لوگ جو علاقہ چھوڑ گئے تھے، وہ آہستہ آہستہ واپس آ رہے ہیں۔ لیکن رات کے اندھیرے کا خوف اب بھی طاری ہے۔

دوسری جانب پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی رہائشی سیما اشرف نے کہاکہ غیر یقینی صورتحال اب بھی برقرار ہے۔ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ یہ جنگ بندی مستقل ہو گی۔

وادی نیلم کے مقامی افسر اختر ایوب نے خبر رساں ایجنسی کو بتایاکہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس آنے سے پہلے حالات کا جائزہ لینے کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔

راجہ شوکت اقبال، جو ایل او سی کے قریب رہتے ہیں، کے مطابق یہ جنگ بندی کشمیری عوام کے لیے ناگزیر تھی، جو دونوں طرف بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔

یہ امن عالمی سطح پر بھی ضروری ہے، کیونکہ دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں۔ ایک غلطی، ایک لمحاتی غصہ، دو ارب انسانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

کشمیر 1947 سے ایک سلگتا ہوا تنازع رہا ہے، جب برطانوی ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس کا حکمران ایک ہندو مہاراجہ تھا۔ پاکستان نے کشمیر پر دعویٰ کیا، مگر مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔

پاکستان، جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے قائم ہوا، اس الحاق کو تاریخی ناانصافی قرار دیتا ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر، جو بھارت کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں، نے حالیہ کشیدگی سے قبل کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔

دوسری طرف بھارت کا طویل عرصے سے مؤقف ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، جس کی اسلام آباد ہمیشہ تردید کرتا آیا ہے۔

Related Posts