مظفرآباد:آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت پسند کمانڈر ریاض نائیکو کی شہادت کے بعد جاری جھڑپوں میں بھارتی قابض فوج کی طرف سے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے ایک نوجوان کو شہید اور 50سے زیادہ پر امن شہریوں کو زخمی کرنے کے واقعہ کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کی سربراہ سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوراً نوٹس لیں اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر اُسے ذمہ دار ٹھہرا ئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور مزاحمت کار نوجوانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ بھارتی فوج سڑکوں اور گلیوں میں پر امن مظاہرے کرنے والے شہریوں پر طاقت کا اندھا دھند استعمال کر رہی ہے۔
صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کے اہم رہنما ریاض نائیکو کی شہادت کے بعد چوتھے روز بھی بھارتی فوج نے ایک طرح کا کرفیو لگا رکھا ہے تاکہ نوجوانوں کو اپنے گھروں سے نکل کر بھارتی فوج کے خلاف مظاہرے کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے اور کشمیر اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ جس بد ترین صورتحال کا ہم ہمیشہ ذکر کرتے رہے وہ صورتحال مقبوضہ ریاست میں پیدا ہو چکی ہے کیونکہ اب اگلہ مرحلہ نسل کشی اور انکار کا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہی ہے، اُنہیں ذبح کیا جا رہا ہے، نوجوانوں کو معذور اور آنکھوں کی بصارت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ سیاسی اسیروں پر جیلوں میں بد ترین تشدد کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں اور وہاں کوئی بے چینی نہیں ہے۔
اس وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کشمیریوں پر مسلط کر دئیے اور بھارت کا یہ قدم اقوام متحدہ کی قراردادوں کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ، اس کی سلامتی کونسل انسانی حقوق کونسل اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے صرف اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی۔
صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ہندو انتہا پسندی نے اب مسلم دشمنی کی عملی شکل اختیار کر لی ہے۔ الزام تراشی اور ظلم و ستم کے بعد اب غیر ہندو اقلیتوں کو علیحدہ اور تنہا کرنے کا عمل اُس طرح شروع ہو چکا ہے جس طرح ہٹلر کی نازی جماعت نے 1933 میں یہودیوں کی دکانوں سے خریداری نہ کرنے اور یہودیوں کے ہوٹلوں میں کھانا نہ کھانے کا عمل شروع کر کے کیا تھا۔
صدر آزاد کشمیر سردا رمسعود خان نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی اور اس حکمت عملی کو اُنہوں نے اپنے چھ نکات میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہو گا۔ اختلافی امور اور باتوں سے اجتناب کرنا ہو گا۔
دوئم ہمیں ایک بار پھر بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی فورم پر تنازعہ کشمیر کو دیگر بین الاقوامی مسائل کے انبار میں دبنے سے بچانا ہو گا۔ سوئم یہ کہ دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن کی طاقت کو مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے بہتر انداز میں استعمال کرنا اور آزاد کشمیر اور پاکستان کو معاشی سفارتی اور فوجی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کے علاوہ بھارت کی سول سو سائٹی تک پہنچ کر اُس کی حمایت کرنا ہو گی۔