اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ دسمبر 1971ء میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئے گئے تھے۔ ملک ٹوٹنے کا بڑا سبب غلط عدالتی فیصلہ تھا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےئ کہا کہ میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنےکا بیج بویا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور ملک دو لخت ہوا۔
سپریم کورٹ، صوبوں اور قومی اسمبلی کا الیکشن ساتھ کرانیکی درخواست
تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے کاموں کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں۔تاریخ ہمیں 7 بار سبق دے چکی اور کتنا سکھائے گی؟
خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملےگا۔ ڈکٹیٹر ریفرنڈم کرائے تو نتائج 98 فیصد آتے ہیں۔ پاکستان میں الیکشن کے نتائج کبھی 60فیصد سے زیادہ نہیں آسکے۔ اختلافات کے باوجود حکومت اور پی این اے نے مسائل حل کر لیے۔
سپریم کورٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 4 جولائی 77 میں مسلط ہونے والے شخص نے اقتدار پرقبضہ کیا۔ 1999ء میں ایک اور سرکاری ملازم نے خود کو سب سے بہتر سمجھا۔ مشرف نے 3 نومبر 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کرکے دوسرا وار کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ تو استعمال ہوا ہے، سوموٹو کا نہیں۔ یہ سپریم کورٹ کو مشروط اختیار دیتا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے اقدامات اٹھائے۔ شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا، کئی بار اچھی طرح اور کئی بار بہت بری طرح بھی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 184 تین کسی فرد کے فائدے کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا۔ استعمال مفادِ عامہ میں نہ ہو تو استعمال نہیں ہوسکتا۔ لازمی ہے کہ پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے۔ اس کا اختیا سپریم کورٹ کے پاس ہے۔دوستوں کی رائے یہ ہے کہ اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔