لاہور: تجربہ کار قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے ہفتے کے روز عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو ”اداروں ” کے دباؤ کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں انسانی حقوق کی کارکن اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب کے دوران کیا۔ کانفرنس کا موضوع تھا ”انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی مضبوطی میں عدلیہ کا کردار“۔
علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ یہ22کروڑ عوام کا ملک ہے، جبکہ 22کروڑ عوام پر ایک جنرل حاوی ہے، انہوں نے کہا کہ یا اُس جنرل کو نیچے آنا ہوگا، یا 22کروڑ کو اوپر آنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، انہوں نے کہا کہ ایک جنرل اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں۔
علی احمد کرد نے مزید کہا کہ عدلیہ کے اندر ایک ”واضح اور قابل مشاہدہ تقسیم” ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا ”دانشور طبقہ ختم ہوگیا” اور ”چونکہ کوئی دانشور طبقہ نہیں ہے، چھوٹے قد کے لوگ سب سے اوپر بیٹھے ہیں۔”
چیف جسٹس گلزار نے الزامات کو مسترد کردیا
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ہفتے کے روز عدلیہ پر ادارہ جاتی دباؤ یا اثر و رسوخ کے الزامات کو مسترد کر دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں عدالتیں اپنا کام چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے کبھی کسی ادارے سے ڈکٹیشن نہیں لی اور نہ ہی کبھی کسی کے دباؤ میں آیا۔ چیف جسٹس گلزار نے کہا کہ وہ سینئر وکیل کی طرف سے کی گئی تشخیص سے بالکل متفق نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہمجھے آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ مجھے کیا فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے اور کسی نے میرے حکم پر مجھے ڈکٹیٹ کرنے کی جرات نہیں کی۔
مزید پڑھیں: صدر اور وزیراعظم کابچوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ