اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy

اسرائیل اور ایران کے درمیان شدت اختیار کرتا ہوا تنازع عالمی سپلائی چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے جس سے توانائی کی منڈیاں، تجارتی راستے اور عالمی اقتصادی استحکام شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

اہم انفرااسٹرکچر پر حملوں، آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکیوں اور تیل و گیس کی پیداوار میں تعطل کی وجہ سے یہ جنگ مہنگائی، کساد بازاری اور سپلائی چین کی مکمل معطلی کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہے۔

اسرائیل پہلے ہی اس جنگ کی بھاری معاشی قیمت چکا رہا ہے۔ تخمینے کے مطابق اگر یہ جنگ ایک ماہ جاری رہی تو اسرائیل کو تقریباً 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا جبکہ روزانہ کے عسکری اخراجات کا تخمینہ 72 کروڑ 50 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔

اگر ایران شہری انفرااسٹرکچر کو نشانہ بناتا رہا تو یہ اخراجات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔ اب تک 5,000 سے زائد اسرائیلی میزائل حملوں کے باعث اپنے گھروں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

افرادی قوت کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہزاروں ریزرو فوجی، جن میں بہت سے ٹیکنالوجی اور صنعتی شعبوں سے وابستہ ہیں، جنگ کے لیے طلب کر لیے گئے ہیں۔

صرف 2024 کے اختتام تک غزہ جنگ میں اسرائیل کو 67.5 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، جس میں شہری و بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات اور مجموعی معیشت پر پڑنے والے اثرات شامل نہیں جن کی مقدار کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

دوسری جانب ایران پہلے ہی بنیادی ڈھانچے کے شدید بحران کا شکار تھا، جسے اپنی معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے 500 ارب ڈالر سے زائد کی فوری سرمایہ کاری درکار تھی۔

امریکی پابندیوں سے متاثرہ ایران کی معیشت پر اسرائیلی حملوں نے مزید کاری ضرب لگائی ہے جنہوں نے ایران کے شہری اور توانائی کے شعبوں کے اہم انفرااسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔

صرف تعمیر نو کے اخراجات ہی درجنوں ارب ڈالر تک جا سکتے ہیں، جو ایران کی کمزور معیشت اور محدود مالی وسائل پر ایک بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔ ایران کے خوارگ جزیرے جو اس کی تیل برآمدات کا 90 فیصد مرکز ہے، کی سرگرمیاں تقریباً بند ہو چکی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کے لیویاتھن اور کاریش گیس کے ذخائر بند کر دیے گئے ہیں جس سے اسرائیل کی دو تہائی گیس سپلائی متاثر ہوئی ہے اور مصر و اردن کو برآمدات رک چکی ہیں۔

آبنائے ہرمز جہاں سے دنیا کا 20 فیصد تیل اور 25 فیصد مائع قدرتی گیس گزرتی ہے، کی بندش کا خطرہ منڈلا رہا ہے، جو تیل کی قیمتوں کو 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچا سکتا ہے۔

برینٹ کروڈ پہلے ہی 72 ڈالر سے بڑھ کر 78 ڈالر فی بیرل تک جا چکا ہے اور تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر تنازع مزید بگڑا تو 1970ء کی طرز کا تیل بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

ایران کی تیل برآمدات 17 لاکھ بیرل یومیہ سے گھٹ کر محض 1 لاکھ 2 ہزار بیرل رہ گئی ہیں، جس سے عالمی رسد مزید تنگ ہو چکی ہے۔ بحری انشورنس کے اخراجات یمن کے حوثیوں کے حملوں اور آبنائے ہرمز میں ایرانی بارودی سرنگوں کے خطرے کے باعث 30 فیصد بڑھ چکے ہیں۔

امریکا کی جانب سے جنگ میں شمولیت کے بعد تیل منڈی ایک نئے غیر یقینی دور میں داخل ہو گئی ہے، اور ماہرین تین ہندسوں کی قیمتوں کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔

ایران کے ایٹمی اثاثوں پر امریکی حملوں کے بعد دنیا بھر کی نظریں تہران کے ممکنہ ردعمل پر جمی ہیں، جبکہ ایران کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے “تمام آپشنز” محفوظ رکھتا ہے۔

ایشیائی منڈیوں کے ابتدائی اوقات میں تیل کے فیوچر 2 فیصد سے زائد بڑھ چکے تھے، جبکہ امریکی ڈبلیو ٹی آئی کروڈ کی قیمت 2 فیصد سے بڑھ کر 75.22 ڈالر فی بیرل، اور برینٹ کروڈ تقریباً 2 فیصد اضافے سے 78.53 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی تھی۔

سینئر انرجی اینالسٹ سول کاوونک نے کہاکہ آئندہ ہفتوں میں رسد میں ایسی بے مثال رکاوٹیں آ سکتی ہیں، جو 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تیل بحران سے بھی زیادہ سنگین ہوں گی۔

ہر 10 ڈالر تیل کی قیمت میں اضافہ امریکی افراط زر کو 0.5 فیصد تک بڑھا سکتا ہے، اور اگر قیمت 130 ڈالر فی بیرل تک گئی تو افراط زر 5.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

امریکا میں پیٹرول کی قیمت 7 ڈالر فی گیلن تک جا سکتی ہے، جس سے ایک گھرانے کے سالانہ اخراجات میں 2500 ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔

طویل جنگ سے عالمی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.4 فیصد کم ہو سکتی ہے اور مہنگائی میں 1.5 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے، جو معیشت کو سست روی اور مہنگائی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے سفارتی حل کو مسترد کیا تو وہ مزید حملے کریں گے، جبکہ ڈیموکریٹس نے وار پاورز ایکٹ کے تحت کانگریس کی نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔

روس نے امریکا کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے، جبکہ چین ممکنہ طور پر بلند تیل قیمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ روس اور ایران اس کی منڈی کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

امریکا کی طرف سے اسلحہ اسرائیل بھیجے جانے کے سبب یوکرین کو ڈرون دفاعی میزائلوں کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے جس سے روسی شہید ڈرونز کے خلاف اس کی دفاعی صلاحیت کمزور پڑ سکتی ہے۔

اگر کشیدگی کم ہو تو تیل کی قیمتیں مستحکم ہو سکتی ہیں، سپلائی چین بحال ہو سکتی ہے، اور سفارتی کوششیں دوبارہ شروع کی جا سکتی ہیں لیکن اگر کشیدگی برقرار رہی تو تیل کی قیمتیں غیر یقینی، مہنگائی بلند اور شپنگ اخراجات مزید بڑھ سکتے ہیں۔

اگر ایران واقعی آبنائے ہرمز بند کر دیتا ہے جیسا کہ ایرانی میڈیا کے مطابق پارلیمان نے اس کی منظوری دے دی ہے تو تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہے، مہنگائی شدید ہو سکتی ہے اور عالمی سطح پر کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آبنائے ہرمز خلیج فارس کو بحیرہ عرب سے ملاتی ہے اور روزانہ 2 کروڑ بیرل تیل اور تیل کی مصنوعات یہاں سے گزرتی ہیں، جو عالمی ترسیل کا تقریباً پانچواں حصہ بنتی ہیں۔

اگر ایران اسے بند کرتا ہے تو مغربی افواج ممکنہ طور پر براہ راست مداخلت کریں گی تاکہ اسے دوبارہ کھولا جا سکے۔ سول کاوونک کے مطابق اگر بندش چند ہفتوں سے زیادہ جاری رہی تو تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کو چھو سکتی ہے اور 2022 کے ریکارڈز کو دوبارہ آزما سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ مکمل بندش کے بغیر بھی، اگر صرف راستہ روکنے یا ہراساں کرنے کی کوشش کی جائے تو بھی قیمتوں میں سنگین اضافہ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل ایران جنگ اب محض ایک علاقائی تنازع نہیں رہی، بلکہ ایک عالمی معاشی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

توانائی کی منڈیوں کی افراتفری، سپلائی چین کی کمزوری، اور بے قابو ہوتی مہنگائی کے درمیان عالمی معیشت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔

آنے والے ہفتے طے کریں گے کہ آیا سفارتکاری تباہی کو روک سکے گی یا دنیا کو ایک طویل اقتصادی طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے ساتھ ہی اس تنازع کے عالمی معیشت پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن میں شامل ہیں: بلند تیل کی قیمتیں، سپلائی چین میں خلل، سست معاشی نمو، مہنگائی میں اضافہ، مرکزی بینکوں کی جانب سے سود کی شرح میں کمی میں تاخیر اور مالیاتی منڈیوں میں غیر یقینی کیفیت۔

مصنفین:

محمد شہباز
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس،
بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بیجنگ، چین
muhdshahbaz77@gmail.com

رضوان اللہ
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس،
بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بیجنگ، چین
rezwanullah1990@yahoo.com

Related Posts