آڈیو لیکس، کیا وزیر اعظم ہاؤس کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں نہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایسا لگتا ہے وزیر اعظم ہاؤس میں نصب ریکارڈنگ آلات سے حکومت بھی لا علم ہے۔

وزیر اعظم شہباز کی مبینہ گفتگو ٹیپ اور لیک آؤٹ ہونے کے بعد ایک اور بھونچال وزیر اعظم کی گفتگو کی آڈیو ٹیپ سامنے کے اگلے ہی دن پوری کابینہ کی گفتگو کی ٹیپس ‘ڈارک ویب’ پر برائے فروخت ڈالے کی اطلاع کی صورت میں آیا ہے اور اس نے وزیر اعظم کی ذات ہی نہیں پورے وزیر اعظم ہاؤس جیسے انتہائی حساس مقام کی سیکورٹی پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

کیا وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی خطرے میں ہے؟

یہ واقعات سامنے آنے کے بعد ہر طرف یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر کون ہے جو وزیر اعظم جیسی ہائی پروفائل شخصیت اور ان کی کابینہ تک  اس حد تک رسائی رکھتا ہے کہ ان کی گفتگو ٹیپ کرکے لیک کر رہا ہے؟

سوشل میڈیا پر اس ضمن میں وزیر اعظم اور وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے بھی سخت رد عمل دیا ہے۔

فواد چودھری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کا آفس ڈیٹا جس طرح ڈارک ویب پر فروخت کیلئے پیش کیا گیا، یہ ہمارے ہاں سائبر سیکورٹی کے حالات بتاتا ہے۔

فواد چودھری نے مزید کہا کہ یہ ہماری ایجنسیز بالخصوص آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ ظاہر ہے سیاسی معاملات کے علاوہ سیکورٹی اور خارجہ موضوعات پر بھی گفتگو اب سب کے ہاتھ میں ہے۔

ایک اور ٹوئٹ میں فواد چودھری نے کہا کہ سو گھنٹے سے زیادہ کی وزیر اعظم کے دفتر کی گفتگو ویب سائٹ پر اگست ستمبر سے برائے فروخت ہے۔ ہماری ایجنسیز کو سیاسی ٹاسک سے فرصت ملتی تو وہ حساس معاملات  پر نظر ڈالتے۔

فواد چودھری کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعے پر حکومت کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟

یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں 100 گھنٹوں سے زیادہ کی ریکارڈنگ ہوئی کیسے؟ اگر یہ بات درست ہے تو یہ یقینا اس بات کی علامت ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی بالخصوص سائبر سیکورٹی سخت خطرے میں ہے۔

ایسا معلوم ہوتا  ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کا سائبر نظام ہیکرز کے کنٹرول میں ہے، اگر ایسا ہے تو یقینا یہ بڑی تشویش کی بات ہے اور اس سے انتہائی حساس نوعیت کا ڈیٹا دشمن کے ہاتھ لگ کر ملک و قوم کیلئے سخت خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

سیکورٹی نا اہلی:

اتنے بڑے پیمانے پر آڈیو لیکس کا ڈارک ویب پر آنا اور ہر ایک کی دسترس میں ہونا خطرے کا الارم ہے اور اس سے یقینا سیکورٹی اداروں اور سیکورٹی نظام کی اہلیت اور کارکردگی پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

حکومتی موقف:

یہ سیکورٹی کا اتنا بڑا فیلیئر ہے کہ ایسا واقعہ کسی اور ملک میں پیش آتا تو اس پر حکومت کا دھڑن تختہ ہوجاتا، مگر یہاں تا حال حکومت کی طرف سے کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا ہے۔ لے دے کر حکمران جماعت ن لیگ کے رہنما طلال چودھری کا رد عمل آیا ہے، جسے راست طور پر حکومت کا موقف تو نہیں کہا جا سکتا، مگر یہ حکمران جماعت کا نمائندہ بیان ضرور ٹھہر سکتا ہے۔

طلال چودھری نے فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روایتی طور پر اس واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ آڈیو لیک اسکینڈل کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

طلال چودھری نے خیال ظاہر کیا کہ مبینہ طور پر اس واقعے اور اسکینڈل کے در پردہ وہ عناصر ہو سکتے ہیں جو عمران خان کو لانے کے پس پشت تھے۔

کیا وزیر اعظم ہاؤس کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں نہیں؟

آڈیو لیکس اسکینڈل سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کا وزیر اعظم ہاؤس کے انتظام اور سیکورٹی نظام پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم ہاؤس میں ایسے آلات لگے ہوئے ہیں جو گفتگو ریکارڈ کر لیتے ہیں تو یقینا یہ اندرونی معاملہ ہے اور اس میں کسی خارجی عامل کا عمل دخل نہیں، مگر حکومت کا اس سے لاعلم ہونا ثابت کرتا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کا کنٹرول حکومت کے مکمل اختیار سے باہر ہے اور یہ یقینا بڑی تشویش کی بات ہے۔

Related Posts