شام کے جنوبی علاقے اللاذقیہ میں سکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ اور تین دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ایک شامی عہدیدار نے کہا ہے کہ کشیدگی کے پیچھے لبنانی حزب اللہ کا ہاتھ ہے۔
اللاذقیہ کے سیکورٹی عہدیدار ساجد الدیک نے کہا کہ گورنری اور دوسرے علاقوں میں حالیہ کشیدگی میں حزب اللہ اور بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
العربیہ کے مطابق شامی عہدیدار نے کہا کہ حزب اللہ نے ساحلی علاقوں میں کچھ گروپوں کو مدد فراہم کی۔ حزب اللہ اور بیرونی ممالک شام کے ساحل پر بعض جماعتوں اور اسد کی باقیات کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سکیورٹی فورسز نے “سابق حکومت کی باقیات” میں سے سینئر شخصیات کو گرفتار کیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ “ہم نے خطے میں سابق حکومت کی باقیات میں سے پانچ سینئر شخصیات کو گرفتار کیا”۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان شخصیات کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
اب کیا صورتحال ہے؟
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صورتحال اب 90 فیصد محفوظ ہے۔
ساجد الدیک نے اس بات پر زور دیا کہ سکیورٹی فورسز علوی فرقے کے سرکردہ افراد سے رابطہ کر رہی ہیں تاکہ اسد کی باقیات میں سے مطلوب عسکریت پسندوں کو ہمارے حوالے کیا جا سکے اور شہر کو واقعات یا جھڑپوں سے بچایا جا سکے۔
الاذقیہ کے گورنر محمد عثمان نے العربیہ کو بتایا کہ ان کے بقول کہ “بغاوت پھیلانے اور اس مقصد کے لیے عناصر کو بھرتی کرنے کے پیچھے بیرونی جماعتیں ہیں”۔
انہوں نے بدامنی پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو مسترد کرنے پر زور دیا۔ایسے لوگ ہیں جو فرقہ واریت پر شرط لگا رہے ہیں اور بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں”۔
گذشتہ جمعرات سے شام کے ساحلی علاقوں میں علوی فرقے کی اکثریت والے کئی علاقوں میں کشیدگی اور جھڑپیں بھڑک اٹھی ہیں۔
العربیہ نے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ شام کے ساحل پر ہونے والی لڑائیوں میں 700 سے زیادہ سیکورٹی فورسز اور “حکومتی باقیات”کے کئی افراد مارے گئے ہیں۔
ذریعے کے مطابق اس سے تشدد سے مرنے والوں کی تعداد 1,018 سے زیادہ ہو گئی ہے، جس میں سکیورٹی فورسز کے 273 ارکان اور اسد کے حامی عسکریت پسند شامل ہیں۔