بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے ایک حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں ملک کی گنجان ترین ریاست اتر پردیش میں اسلامی مدارس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
بھارت کی مذہبی انتہا پسند ہندو نسل پرست مودی سرکار بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے درپے ہے، اس ضمن میں جہاں ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے تمام نشانات جن میں شہروں اور قصبوں کے نام شامل ہیں کو بدلا جا رہا ہے، وہاں مسلمانوں کی وقف املاک ہتھیانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مودی کی متعصب سرکار نے ہندوستان کے طول و عرض میں قائم پرانی مساجد کو مندروں میں بدلنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اب اسلامی مدارس کو بھی مکمل بند کرنے کیلئے بتدریج کام شروع کر دیا گیا ہے۔
مارچ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مدارس کے حوالے سے 2004 کا ایک قانون یہ کہہ کر منسوخ کر دیا تھا کہ یہ سیکولرازم کے آئینی اصول کی خلاف ورزی تھی اور مدارس کے تمام طلباء کو روایتی اسکولوں میں منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
البتہ عدالتِ عظمیٰ نے مارچ کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شمالی ریاست میں 25,000 مدارس کو کام کرنے کی اجازت دے دی جس سے 2.7 ملین طلباء اور 10،000 اساتذہ کو اطمینان حاصل ہوا اور اس طرح عارضی اور وقتی طور پر خطرے کی تلوار ہٹ گئی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی۔ چندرچور نے عدالت میں کہا کہ بچوں کے مناسب تعلیم حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے یہ عمل ریاست کی مثبت ذمہ داری کے مطابق ہے۔ اس کے جواب میں ریاستی حکومت نے کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو اتر پردیش میں بھی حکومت میں ہے، شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی سینکڑوں اسلامی مدارس کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کر رہی ہے۔
مسلمانوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بی جے پی کے بعض ارکان اور اس سے وابستہ افراد پر اسلام مخالف نفرت انگیز تقریر اور بدامنی کو فروغ دینے اور مسلمانوں کی ملکیتی جائیدادوں کو منہدم کرنے کا الزام لگایا ہے۔