ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے ملک گیرمظاہروں کا مقابلہ کرنے والی سکیورٹی فورسز کی بھرپورحمایت کردی ہے اور کہا ہے پولیس حراست میں نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد بھڑکنے والے مظاہرے منصوبہ بند تھےاور یہ عام ایرانیوں کے اقدامات نہیں۔
رہبراعلیٰ علی خامنہ ای نے ایران میں دو ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری بدامنی پرسوموار کو اپنے پہلے تبصرے میں کہا کہ’’22 سالہ مہسا امینی کی موت نے میرا دل توڑ دیا ہے اوریہ ایک ’’تلخ واقعہ‘‘تھا۔
لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کچھ لوگوں نے سڑکوں پرامن وامان کا مسئلہ پیدا کیا ہے‘‘۔انھوں نے مظاہروں کومنصوبہ بند ’’فسادات‘‘ کے طور پر بیان کیا، اور ایران کے کٹر مخالفین امریکا اوراسرائیل پران مظاہروں کی کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ٹرانس جینڈر: اختلاف کیا، کیوں اور کیسے؟
انھوں نے کہا کہ ’’پولیس سمیت ہماری سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ایرانی قوم کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ جو لوگ پولیس پر حملہ کرتے ہیں وہ ایرانی شہریوں کو ٹھگوں، ڈاکوؤں اور بھتاخوروں کے خلاف بے بس چھوڑ رہے ہیں‘‘۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پولیس اور رضاکار بسیج ملیشیا سمیت سکیورٹی فورسز مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی قیادت کررہی ہیں۔ان میں 130 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں اورملک بھر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
ایرانی حکام نے بدامنی کے دوران میں سکیورٹی فورسزکے بہت سے ارکان کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے ۔یہ احتجاجی تحریک گذشتہ چارسال میں ایران کی شیعہ علماء کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔
خامنہ ای نے کہا کہ مظاہروں کے دوران میں سکیورٹی فورسز کو’ناانصافی‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حالیہ واقعات میں، یہ پولیس اور بسیج سمیت تمام سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ ایران کے عوام سے بھی ناانصافی کی گئی ہے۔