ایرانی پولیس کی ڈھٹائی، خاتون کی زیر حراست موت کا انکار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایران کےدارالحکومت تہران میں پولیس سربراہ نے کہا ہے کہ 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی نے ’نامناسب لباس‘ زیب تن کیا ہوا تھا۔ انھوں نے الزامات کو بزدلانہ قرار دیا اور اس بات کی تردید کی کہ وہ تہران کی اخلاقی پولیس کے زیرحراست مبیّنہ طور پرتشدد سے ہلاک ہوئی تھیں۔

گریٹرتہران پولیس کے کمانڈر حسین رحیمی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امینی کو اخلاقی پولیس نے ایک پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے روک لیا تھاکیونکہ ان کا حجاب ’نامناسب‘ تھا۔

رحیمی نے ان الزامات کی تردید کی کہ امینی کو پولیس افسروں نے ماراپیٹا اور کہا کہ ’’پولیس کے خلاف بزدلانہ الزامات لگائے گئے ہیں‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس معاملے میں کوئی بے پروائی نہیں برتی تھی یہاں تک کہ ایک ہلکا سے تھپڑ بھی نہیں مارا۔ موت کی وجوہات کے بارے میں سائبراسپیس میں شائع ہونے والا تمام مواد خالص جھوٹ ہے۔

بائیس سالہ کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کو 13 ستمبر کو تہران میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔وہ اس کے کچھ ہی دیر بعد کوما میں چلی گئی تھیں اور گذشتہ جمعہ کودارالحکومت تہران میں واقع ایک اسپتال میں انھیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ان کی اس انداز میں موت کے خلاف سوشل میڈیا پرسخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اورسڑکوں پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

تہران پولیس کا کہنا ہے کہ امینی کو حراست کے دوران میں اچانک دل کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ گرفتاری سے قبل وہ صحت کے متعدد مسائل کا شکار تھیں۔

لیکن امینی کے والدین نے کہا ہے کہ حراست میں لیے جانے سے پہلے ان کی بیٹی کو صحت کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دوران حراست خاتون کو مارا پیٹا گیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئیں اورپھر وہ اچانک پہلے کوما اور پھرموت کے مُنھ میں چلی گئیں۔

مہسا امینی کے والد امجد امینی نے ایک انٹرویو میں بالاصرار کہا ہے کہ ان کی بیٹی کی بیماری کی کوئی تاریخ نہیں تھی اور وہ مکمل صحت مند تھی۔

ایران کے مغربی صوبہ کردستان میں گذشتہ ہفتے کے روز اس نوجوان خاتون کی نمازجنازہ کے موقع پرلوگوں نے حکام کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوزمیں متوفیہ مہسا امینی کے آبائی شہرساکیز میں جنازے میں شریک بعض مظاہرین نے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خلاف ’’مرگ برآمر‘‘ کی نعرے بازی کی جبکہ پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے تھے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران میں ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے خواتین پر زوردیا ہے کہ وہ عوامی سطح پر حجاب نہ اوڑھیں۔مگران کی اپیل پر اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو انھیں اسلامی ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کی پاداش میں گرفتاری کا خطرہ ہوتا ہے اورسخت گیرحکام عورتوں کے اس’’غیراخلاقی طرزِعمل‘‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے لیے حجاب کو 1979 کے انقلاب کے فوری بعد لازمی قراردیا گیا تھا۔ایران کے مذہبی حکمرانوں کے لیے اس کو سرخ لکیر سمجھاجاتا ہے۔اگر خواتین عوامی مقامات پر سخت ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں تو ایران کی اخلاقی پولیس المعروف گشت ارشاد کے کارندے انھیں ہراساں کرتے اور گرفتارکرکے تھانے لے جاتے ہیں۔

ایران میں نافذالعمل ضابط لباس کے تحت خواتین کو اپنے سرکے بالوں کو عوامی سطح پر مکمل طور پر ڈھانپنا اور لمبے، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا ضروری ہے۔

Related Posts