ایران کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ہفتے کے روز کہا کہ جو لوگ خواتین کو حجاب اتارنے کی ترغیب دیتے ہیں ان کے خلاف فوجداری عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا اور انہیں کسی بھی سزا کے خلاف اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔
ان کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد احتجاجا لباس کے لازمی ضابطوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جس کا مظاہرہ شاپنگ مالز، ریستوراں، دکانوں، گلیوں اور دیگر عوامی مقامات پر کیا جارہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں کئی مشہور شخصیات اور خواتین کارکنوں نے بھی بغیر حجاب کے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق، ایرانی پولیس نے ہفتے کے روز عوامی مقامات پر کیمرے نصب کیے ہیں تاکہ بے پردہ خواتین کی شناخت کی جاسکے۔
پولیس نے اس منصوبے کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا تھا۔
نیم سرکاری مہر نیوز نے ڈپٹی اٹارنی جنرل علی جمادی کے حوالے سے بتایا کہ، “بے حجابی کو فروغ دینے کے جرم کے خلاف فوجداری عدالت میں کارروائی کی جائے گی جس کے فیصلے حتمی اور ناقابلِ اپیل ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “دوسروں کو حجاب اتارنے کی ترغیب دینے کے جرم کی سزا خود حجاب اتارنے کے جرم سے کہیں زیادہ بھاری ہے، کیونکہ یہ بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کی واضح مثالوں میں سے ایک ہے۔”
واضح رہے کہ گذشتہ ستمبر میں اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایرانی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پردے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مہسا امینی کو حجاب کے اصول کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے ان کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو پرتشدد انداز میں کچلنے کی کوشش کی۔