ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے جاری احتجاج کے دوران اب طالبات نے بطور احتجاج اپنے سروں سے اسکارف اتار کر ہوا میں لہرانے کا آغاز کر دیا ہے۔
کردستان سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں اخلاقی پولیس نے 13 ستمبر کو ٹھیک سے اسکارف نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا جو دوران حراست تشدد سے دم توڑ گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان میں گوگل کے “گردشی معیشت پروگرام” کیلئے درخواستیں لینے کا عمل شروع
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے مختلف شہروں میں جاری پر تشدد احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا جس میں یونیورسٹی کالجز اور اسکولوں کے طلباء و طالبات حصہ لے رہے ہیں۔
On Monday, protests continue in several schools and universities across #Iran. These students from Tehran’s Azad University are chanting: Imprisoned students must be released… #MahsaAmini #Iran pic.twitter.com/gu3lKoRNRm
— Rana Rahimpour (@ranarahimpour) October 3, 2022
ایرانی طالبات بطور احتجاج اپنے سروں کے اسکارف اتار کر سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کررہی ہیں اور احتجاجی مظاہروں میں بھی طالبات اسکارف اتار کر ایرانی حکومت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کررہی ہیں۔
Protesting students, chasing away an #Iranian official from their school, shouting: Shame on you…October 3rd… #MahsaAmini pic.twitter.com/eFmRhvaN2H
— Rana Rahimpour (@ranarahimpour) October 3, 2022
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تہران کے قریبی علاقے کارج کے ایک اسکول کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طالبات حجاب ہوا میں لہراتے ہوئے ایک حکومتی اہلکار کو اسکول سے باہر نلکنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
طالبات حکومتی اہلکار کے سامنے شیم آن یو کے نعرے لگاتی ہیں اور اسکے اوپر پانی کی خالی بوتلیں بھی پھینکتی ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں طلباء کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو وہ ہمیں ایک ایک کرکے مارڈالیں گے۔
شیراز میں بھی درجنوں طالبات نے مرکزی سڑک کو بند کرکے احتجاج کیا اور اسکارف ہوا میں لہرائے۔
طالبات نے ’’ڈکٹیٹر کی موت‘‘ کے نعرے لگائے جس کا اشارہ واضح طور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف تھا۔
ایک اور تصویر میں ایک کلاس روم میں طالبات خامنہ ای کی تصیر کے سامنے بے حجاب ہوکر اپنی درمیانی انگلی دکھاتی نظر آرہی ہیں۔
The first reaction from Iran’s supreme leader about protests over the death of #MahsaAmini was loaded with warnings of escalation, yet the protests themselves spread to secondary schools today with some schoolgirls making a point about how they felt towards the supreme leader. pic.twitter.com/ya2MPr15b4
— Siavash Ardalan (@BBCArdalan) October 4, 2022