کراچی: بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بلدیاتی قیادت اور سیاسی وابستہ افسران نے چائنہ کٹنگ اور اراضیوں کی بندر بانٹ کے جو گل کھلائے، تحقیقاتی اداروں نے اس کی انکوائری کا آغاز کر دیا۔
جن غیر قانونی اقدامات اور کرپشن کی تحقیقات کی جائیں گی ان میں شہر کے بڑے بڑے سیاسی کرداراور سیاسی جماعت سے وابستہ کرپٹ افسران شامل ہیں، با خبر ذرائع کے مطابق فریئر ہال میں منتخب بلدیاتی قیادت کی مدت ختم ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر مداخلت کر کے کمرشل میلے لگتے رہے۔
ذرائع کے مطابق فیریئر حال جہاں میئر کے نمائندے ریحان علی، عدیل، دانش، ڈپٹی میئر کے کارندے حسن، جنید، سرکاری افسران مسعود عالم، مظہر خان، جمیل فاروقی، متین صدیقی، فنانس افسران، فرید تاجک، عمران راجپوت و دیگر رجسٹروں کے ساتھ مبینہ طور پر غیر قانونی آرڈرز نکال نکال کر ان کی رقوم کی وصولی اور ڈسپیج نمبر لگاتے رہے۔
اطلا عات کے مطابق تین کروڑسے زائد کی رقم ان آرڈرز سے وصول کی گئی، زمینوں کو چار سال میں ٹھکانے لگانے کے علاوہ آخری وقتوں میں اولڈ سبزی منڈی، گلشن اقبال، گلشن نور، اورنگی کی چار خالی زمینوں، کو رشتہ داروں اور سیاسی شخصیات میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق وسیم اختر نے اپنے کزن کنور حسن مسعود عرف فضیل کو اورنگی کی3200گز زمین علی گڑھ میں جو کھوئے والی مارکیٹ کہلاتی ہے۔ وہ الاٹ کرنے کے لئے کہا۔ جبکہ یو سی ڈی کی 7500گز زمین سیاسی افراد جس میں سابق نائب ناظم ٹاؤن بھی شامل ہیں۔اسی طرح کلفٹن کی زمین کا سودا کرلیا گیا تھا۔
انسداد تجاوزات کے محکمے سے کروڑوں روپے لئے جا رہے تھے۔ یہ محکمہ بلیک میلنگ اور بڑے بڑے اداروں کو نوٹس دیکر ریکوری کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ کچی آبادی کی پرائم زمینوں پر میٹروپولیٹن کمشنر نے رکاوٹ ڈالی۔ ان زمینوں کو ایم سی کو بائی پاس کرکے نمٹانے کے لئے فرید تاجک کو کچی آبادی لایا گیا۔ جسکے بعد صباح السلام کو لایا گیا۔ جو گلشن نور، یوسف گوٹھ، بلدیہ ٹاؤن نمٹانے کے لئے کام کرتے تھے۔
اورنگی کی پرائم زمینیں جو سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان نے واگزار کرائی تھیں، ان کو نمٹانے کے لئے میئر، ڈپٹی میئر اور کچی آبادی کے چیئرمین نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو مجبور کیا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف منع کردیا بلکہ بھرپور مزاحمت کی۔ جسکے بعداس پی ڈی کو اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ اسپتال تک پہنچ گئے۔
سعد بن جعفر نے فائلیں کچی آبادی میں تیار کرائیں، پے آرڈرز بن گئے۔اخبار میں اشتہارات دے دیئے گئے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے نہ صرف انہیں قبول نہیں کیا بلکہ اسکی رپورٹ اینٹی کرپشن کو کردی۔ جسکے بعد وہ چھٹی لیکر چلے گئے۔
پرانی تاریخوں میں کرپٹ ترین افسر شارق الیاس کو یہ زمینیں نمٹانے کے لئے لایا گیا۔ پرانے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے گھر غنڈے بھیجے گئے تاکہ ان سے زبردستی دستخط کرائے جا سکیں۔ مظہر خان نے اس کام میں ان کا ساتھ دیا اور جعلی آرڈر پرانی تاریخ میں نکالا جسکے انعام کے طور پر مظہر خان کو سینئر ڈائریکٹر کچی آبادی بنا دیا گیا۔