بہت تاخیر کے بعد بالآخر افغان حکومت اور طالبان کے ما بین انٹر افغان مذاکرات کا آغاز دوحہ میں شروع ہوگیا، مذاکرات کی میز پر پہنچنے اور اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر دونوں فریقین نے بہت سی رکاوٹوں اور قدیمی دشمنیوں پر آخر کارقابو پالیا ہے۔
دونوں فریقین کے مابین مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان قیدیوں کی رہائی تھی، امریکی طالبان معاہدے کے تحت افغان حکومت کو 5000 قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ طالبان نے مذاکرات کے سربراہ کو تبدیل کردیا اور سخت گیر مولانا عبدالحکیم کو مقرر کردیا ہے۔ افغان جماعت کی قیادت عبد اللہ عبد اللہ کر رہے ہیں جن کی طالبان کے ساتھ ایک تاریخ ہے۔ اب دونوں فریقوں کو ایک دوسرے سے نفرت کے باوجود بیٹھ کر مستقبل کے لائحہ عمل پر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ایجنڈے میں اولین ترجیح مستقل طور پر فائر بندی کا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس تاحال پرتشدد حملوں کا سلسلہ جاری ہے اگرچہ طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اس ہفتے نائب وزیر اعظم اور سابق انٹلیجنس چیف قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ اس سے قبل خاتون قانون ساز فوزیہ کوفی پر حملہ ہوا تھا جو مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ تھیں۔ مسلسل تشدد کے واقعات کے باوجود دونوں جانب سے پائیدار امن کا راستہ تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
امریکہ نے افغان تاریخی مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ صدر ٹرمپ کے لئے اچھی خبر ہے جو صدارتی انتخابات سے قبل اسے اپنی کامیابی کے طور پر استعمال کریں گے۔ سب سے بڑا مسئلہ ایک نئے سیاسی سیٹ اپ کا فیصلہ کرنا ہے کیونکہ افغان حکومت موجودہ نظام کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، جبکہ طالبان اسلامی نظام حکومت کے اپنے ورژن کو دوبارہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان نے اپنے آپ کو انتہائی قدامت پسندانہ طرز پر سخت سزائیں عائد کرنے اور خواتین پر دباؤ ڈالنے کے باعث بدنام کیا، طالبان کی حکمرانی کے دور میں بہت سارے افغانیوں کو ہلاک کیا گیا، افغان حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس طرح کا کوئی قدیم اور رجعت پسند نظام واپس نہ آجائے جو مذاکرات کے دوران ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
مذاکرات کرنے والی ٹیم میں خواتین کے حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں۔ طالبان نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا وہ خواتین کے بارے میں کم سخت موقف اپنائیں گے۔مگر طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اب وہ خواتین کی تعلیم یا ان کے کام کرنے کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن اس حوالے سے بہت سے لوگوں کو شبہ ہے۔
مذاکرات کے دوران خواتین کے حقوق سے متعلق پیش رفت یقینی طور پر سخت موضوع ہوں گے،دونوں ہی معاملات میں، دونوں فریقوں کو چاہئے کہ بہت سارے معاملات پر ایک دوسرے کی رائے کو نا پسند ہونے کے باوجود مذاکرات کو جاری رکھا جائے اور بات کو آگے بڑھانے کو یقینی بنایا جائے، کیونکہ لاکھوں افغانوں کی زندگیاں اس پر منحصر ہیں۔