مقبول خبریں

کالمز

Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہر قوم ایک اجتماعی مزاج اور یادداشت رکھتی ہے۔ بعض اقوام طبعاً جنگجو جبکہ بعض امن پسند ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض بہت سخی اور بعض بہت کنجوس بھی ہوتی ہیں۔

یادداشت کے معاملے میں بھی اقوام ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کچھ قومیں اپنی تاریخ کا تمام ضروری حصہ اپنے حافظے میں صرف محفوظ ہی نہیں بلکہ حاضر بھی رکھتی ہیں۔ جبکہ کچھ قوموں کا اس طرح کا حافظہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا سارا دار و مدار اس بات پر ہے کہ کونسی قوم پڑھنے میں کتنی دلچسپی لیتی ہے۔ مطالعے کی دنیا میں تاریخ ہمیشہ قاری کے لئے ایک پرکشش موضوع رہا ہے۔ کیونکہ انسان کے لئے ماضی کے واقعات ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ گھروں میں دادیاں پوتوں پوتیوں کو کہانیاں بھی اسی لئے تو سناتی ہیں۔

اس دلچسپی کا اندازہ آپ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ ایک مجلس میں کوئی علمی موضوع چھیڑ دیجئے۔ اگر اس بیٹھک میں دو درجن لوگ موجود ہوں تو آپ کی خوش قسمتی ہوگی اگر ان میں سے پانچ چھ بھی اس میں گہری دلچسپی لیتے نظر آئیں۔ لیکن اگر اسی نشست میں آپ موضوع بدل کر تاریخی واقعات زیر بحث لے آئیں۔ پھر بیشک وہ آپ کے ذاتی واقعات ہی کیوں نہ ہوں، اچانک تمام شرکاء کی آنکھیں چمک اٹھیں گی اور وہ گہری دلچسپی کے ساتھ آپ کی گفتگو سننے لگیں گے۔ خود ہم جب 2014ء میں سوشل میڈیا پر باقاعدگی کے ساتھ سرگرم ہوئے تو فالوورز کو اسی حربے سے اپنی جانب کھینچا تھا۔ ہم نے ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہے، سو جب ہم کسی مناسبت سے ماضی کا کوئی قصہ لکھتے تو قاری گہری دلچسپی لیتا چلا جاتا۔

پھر واقعات کا ایک اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کی نسبت سے ہمیشہ دو آراء موجود ہوتی ہیں۔ یوں اگر قاری کی رائے آپ کی سوچ سے متصادم ہو تو وہ کوئی جذباتی ری ایکشن ضرور دیتا ہے۔ اور قاری کی یہ جذباتی کیفیت رائٹر کے لئے ہمیشہ کار آمد رہتی ہے۔ اگر رائٹر ان بھڑکتے جذبات پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتا رہے، اس سے جذبات کا شکار شخص بڑا ردعمل دینے کی ٹھان لیتا ہے۔ جو سوشل میڈیا پر کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف فیس بک پر پوسٹ یا ٹویٹر پر ٹویٹ کردے۔ یوں اس کی فرینڈ لسٹ میں موجود بہت سے ایسے اجنبی آپ کی وال کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں جنہوں نے اس سے قبل شاید آپ کا نام بھی نہ سنا ہو۔ ہم نے 2014ء سے 2017ء تک اس تکنیک کا بھرپور استعمال کیا۔ اس میں آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ کسی مخصوص حلقے کی تاریخ کا ایک حساس قصہ چھیڑ دیجئے، وہاں سے ردعمل خود بخود آئے گا۔ اور یہی ردعمل آپ کے تعارف کا دائرہ پھیلاتا چلا جائے گا۔

اب اگر آپ غور کیجئے تو یہ نتائج اس لئے حاصل ہوتے ہیں کہ لوگ تاریخ میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ہمارا مجموعی قومی حافظہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کی اکثریت کتب سے بیزار ہے اور قومی تاریخ تو کتب میں ہی دستیاب ہے۔ ان کی دلچسپی کا محور صرف انٹرٹینمنٹ ہی ہے۔ پھر یہ انٹرٹینمنٹ خواہ سیاسی ہی کیوں نہ ہو۔یہ صورتحال قوم کے لئے بہت خطرناک جبکہ سیاستدانوں کے لئے حد درجہ مفید ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ حکومت میں موجود کسی وزیر پر کرپشن کے بہت سے الزامات ہوں تو حکومت ختم ہوتے ہی وہ سیاسی تخلیہ اختیار کر لیتا ہے؟ مثلاً آپ حالیہ مثال کے طور پر سابق وزیر خسرو بختیار کو ہی لے لیجئے۔ عمران خان کابینہ کے جن وزراء کی کرپشن کے قصے بہت زیادہ زیر بحث تھے، یہ موصوف ان میں سے تھے۔ لیکن کیا آپ نے عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کی کوئی سرگرمی دیکھی؟ کیا یہ عمران خان اور ان کے بیانیے کی جنگ میں آپ کو سرگرم نظر آتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا خسرو بختیار سیاست چھوڑ گئے؟ نہیں۔ وہ بس قوم کے کمزور حافضے کا فائدہ اٹھانے کی سکیم پر عمل پیرا ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میڈیا اور سیاسی ورکرز اسی کو توجہ دیتے ہیں جو سرگرم ہو۔ سو الزامات کی زد میں رہنے کے بعد اگر کچھ عرصہ منظر سے دور ہولیا جائے تو اس دوران کوئی آپ کو زیر بحث نہیں لاتا جس سے رفتہ رفتہ سب آپ پر لگے کرپشن کے الزامات بھول جاتے ہیں۔ یوں جب چند سال بعد ایسا شخص پھر میدان میں اترتا ہے اور میڈیا یاد دلانے کی کوشش بھی کرے کہ ان پر تو چار سال قبل فلاں فلاں الزامات تھے، کوئی بھی توجہ نہیں دیتا۔ اس باب میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ تک یہ حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

مثلاً آپ آصف علی زرداری کو ہی لے لیجئے۔ بطور صدر پاکستان وہ اسٹیبلیشمنٹ کے نشانے پر رہے۔ ان کی صدارت کا دور ختم ہوا تو یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت نون لیگ سے قربت کی حکمت عملی پر قائم رہے۔ اسٹیبلیشمنٹ بخوبی دیکھ چکی تھی کہ نواز شریف کے خلاف اس کی پی ٹی آئی دھرنا سکیم کو فیل کرنے میں زرداری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی پیپلزپارٹی نواز شریف کی حمایت میں جم کر کھڑی رہی۔ چنانچہ اسٹیبلیشمنٹ نے انہیں سندھ میں رینجرز کی مدد سے گھیر لیا۔ ضیاء الدین ہسپتال کے ڈاکٹر عاصم حسین پر پانچ سو ارب سے زائد کی کرپشن کے کیسز یاد ہیں؟ صرف یہی نہیں بلکہ ان پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ ان کے ہسپتال میں 330 دہشت گردوں کا علاج ہوا ہے۔ اور اس پوری مہم میں سندھ رینجرز سرگرم تھی۔ لیکن جوں ہی صدر زرداری منظر سے ہٹے اور نواز شریف تنہا رہ گئے تو پھر نہ ڈاکٹر عاصم حسین کا پانچ سو ارب کی کرپشن والا معاملہ آگے بڑھا اور نہ ہی دہشت گردوں کے علاج والا۔ پیپلزپارٹی کے لئے ماحول یکدم پرسکون ہو گیا۔ سو سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ زرداری کی جان یوں چھوٹی کہ وہ منظر سے غائب ہوگئے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسٹیبلیشمنٹ کو کرپشن ختم کرنے میں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں۔ وہ سیاست کے کھیل میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہر حربہ اختیار کرتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاستدان کرپشن کرتے ہیں۔ مگر اتنی بھی نہیں جتنی مشہور ہے۔ اگر آپ کرپشن کے کچھ مشہور زمانہ الزامات کی لسٹ بنا کر ان پر تھوڑا غور فرمائیں تو آپ کو دو باتیں صاف نظر آئیں گی۔ پہلی یہ کہ یہ الزامات لازماً ان ذرائع سے ہی سامنے آئے ہوں گے جو اسٹیبلیشمنٹ کے قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ ان الزامات کی تشہیر میں کٹھ پتلی سیاستدان ہی نہیں بلکہ کٹھ پتلی صحافی بھی ملوث ہوتے ہیں۔دوسری چیز یہ نظر آئے گی کہ جونہی ٹارگٹ سیاستدان ہتھیار ڈال کر وقتی پسپائی اختیار کرلے یہ الزامات ہی نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے والے ججز بھی قیلولہ فرما لیتے ہیں۔ آپ نواز شریف کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ ان پر یلغار بس تب تک رہی جب تک وہ ڈٹے رہے۔ جوں ہی پلیٹ لیٹس سکیم کے تحت پیچھے ہٹے، ماحول پرسکون ہوگیا۔ اور آج کی تاریخ میں نئے حالات کے تقاضوں کے تحت وہی نواز شریف اب اسی اسٹیبلیشمنٹ کی ضرورت بن گئے ہیں۔ سو اسی عدلیہ کے ذریعے بری بھی ہو جائیں گے۔ آپ بس دیکھتے جایئے، پٹواری اسے انصاف کا بول بالا ہی بتائیں گے۔ حالانکہ الزامات لگنے سے سزا تک اور سزا سے بری ہونے تک یہ سب بس ایک بنی بنائی سکیم ہی ہے۔ سزا دلوانے والے جانتے تھے کہ یہ ایک وقتی سکیم ہے۔ اسی لئے بری کرنے کے لئے جواز سزا سناتے وقت ہی تیار کر لئے گئے ہیں۔ مثلا بری کرنے والے جج یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسی سزا ہے کہ کیس پاناما کا تھا اور سزا اقامے پر ہوئی؟ اور پاکستانی سیاسی ورکر اس پر واہ واہ کے ڈونگرے نچھاور کرے گا۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچے گا کہ ڈائیلاگ تب مارا جا رہا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کو اب یہی مطلوب ہے۔

سیاست کا یہ کھیل اسی طرح چلتا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے اس میں اپنے لئے خود ہی ریگولیٹر والا کردار بھی متعین کر رکھا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ یہ کھیل اسی کے اشاروں کے مطابق چلتا رہے۔ جب کوئی اشارے نہیں سمجھتا تو پھر قانون کو حرکت میں لا کر تگنی کا ناچ نچا دیا جاتا ہے۔ مگر یہ بات تو ماننی ہوگی کہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ “شفیق” بہت ہے۔ قدم پیچھے ہٹانے والے کو بالکل تنگ نہیں کرتی۔ اسے پیغام دیدیتی ہے کہ چپ چاپ اپنی اگلی باری کا انتظار کیجئے۔ عمران خان سے بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اب آپ کا گوشہ تنہائی میں جانے کا وقت ہے۔ وہ یہ اشارہ قبول نہیں کر رہے۔ مصر ہیں کہ جس دس سالہ منصوبے کا خواب دکھایا گیا تھا اسے تعبیر بھی دی جائے۔ نہ سمجھنے کا نتیجہ کسی عدالتی فیصلے کی صورت ہی ظاہر ہوگا۔ مگر اس بات کی گارنٹی ہے کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ بور ہوئی، وہ ایک بار پھر خان صاحب کو گرین سگنل دیدے گی۔ اور کہے گی، خوابوں کی تعبیر یکمشت نہیں قسطوں میں ملتی ہے۔ آپ کی دوسری قسط کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ عدم مداخلت والے بس اتنی ہی دیر تک عدم مداخلت کے فیصلے پر قائم رہیں گے ، جتنی دیر میں ان کی یونیفارم پر لگے داغ مٹ نہیں جاتے۔ قوم کا حافظہ کمزور ہے اور قومی مفاد کا ٹوٹکا بہت کار آمد۔ سو یوتھیے پھدکنے کی بجائے اگلے عظیم تر قومی مفاد کا انتظار فرمائیں۔ وہ لمحہ آنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔

Related Posts