عالمی یومِ پارلیمان کے موقع پر پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں قانون سازی کی رفتار، اجلاسوں کی تعداد، شفافیت کے مسائل اور خواتین کی پارلیمانی شمولیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی رپورٹ کے مطابق، 16ویں قومی اسمبلی نے اپنے پہلے پارلیمانی سال میں مجموعی طور پر 47 بل منظور کیے، جو پچھلی اسمبلی کے 10 بلوں کے مقابلے میں 370 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں ملک کی سیاسی تاریخ میں اہم حیثیت رکھنے والی 26ویں آئینی ترمیم بھی شامل ہے، جس نے اہم قانونی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ یہ بڑھتی ہوئی قانون سازی کا عمل پارلیمنٹ کی فعالیت کا مظہر ہے، مگر اس رفتار کے ساتھ شفافیت اور معیار کے حوالے سے سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 16ویں اسمبلی کے دوران 93 اجلاس ہوئے، جن میں کل 212 گھنٹے کام کیا گیا۔ اگرچہ اجلاسوں کی تعداد اور مجموعی کام کا وقت گزشتہ اسمبلی (96 اجلاس، 297 گھنٹے) کے مقابلے میں کم رہا، مگر قانون سازی کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسمبلی نے کم وقت میں زیادہ بل منظور کرنے کی کوشش کی، جس کا مطلب ہے کہ قانون سازی کا عمل تیز مگر ممکنہ طور پر کم تفصیلی رہا۔
پارلیمانی اجلاسوں میں حاضری کے نظام میں بھی خامیاں سامنے آئیں۔ موجودہ نظام میں صرف پانچ منٹ کے لیے اجلاس میں موجود ممبر کو بھی مکمل حاضری شمار کیا جاتا ہے، جس سے حاضری کے درست اور شفاف ریکارڈ پر سوالات اٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں، کورم کی کمی اور اجلاسوں کی بار بار تاخیر نے قانون سازی کے عمل کو متاثر کیا۔
رپورٹ میں خواتین ارکان کی نمایاں کارکردگی کو خاص طور پر سراہا گیا ہے۔ اگرچہ خواتین پارلیمنٹ میں صرف 17 فیصد نمائندگی رکھتی ہیں، مگر انہوں نے 2024-25 کے ایجنڈے کا تقریباً نصف حصہ پیش کیا۔ خواتین ارکان نے اوسطاً 17 ایجنڈا آئٹمز پیش کیے، جبکہ مرد ارکان کی اوسط محض 3 رہی، جو خواتین کی قانون سازی اور پالیسی سازی میں بڑھتے ہوئے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔
مجموعی طور پر 16ویں قومی اسمبلی نے قانون سازی کے حوالے سے بے مثال پیش رفت کی ہے، مگر اجلاسوں کی کم تعداد، محدود کام کا دورانیہ اور شفافیت کے مسائل اس کارکردگی میں رکاوٹ ہیں۔ خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت ایک خوش آئند رجحان ہے جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ پارلیمانی نظام مزید مؤثر اور جامع بن سکے۔
قانون سازی کی رفتار کے ساتھ معیار اور تفصیلی جائزے پر توجہ دی جائے، حاضری کے نظام کو شفاف اور موثر بنانے کے لیے اصلاحات کی جائیں، اجلاسوں کے انعقاد میں تاخیر اور کورم کی کمی کے مسائل حل کیے جائیں، خواتین کی پارلیمانی نمائندگی اور کردار کو مزید بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔