پاکستان سمیت دُنیا بھر میں جمہوریت کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جبکہ اِس موقعے پر مملکتِ خداداد میں جمہوری قدروں کی صورتحال پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔
آگے بڑھنے سے پیشتر آج ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ جمہوریت کیا ہے؟ اور جمہوری نظام کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟ جس کے بعد پاکستان میں جمہوری قدروں کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔
جمہوریت سے مراد؟
اگر ہم جمہوریت کی تعریف کا جائزہ لیں تو اِس سے مراد وہ ریاستی و حکومتی نظام ہے جس میں وفاقی، صوبائی یا ریاستی سطح پر تمام تر حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی صورت میں حکومتی نظام تشکیل دیتی ہیں۔
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا کہنا ہےکہ جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت عوام کی ذریعے خود عوام پر ہونا ہے جس کا مقصد عوام کی خدمت ہے، یعنی جمہوریت کی تعریف عوام سے شروع ہو کر عوام پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں کسی آمر یا بادشاہ کا تصور پیشِ نظر نہیں رکھا جاسکتا۔
جمہوریت آمریت کی ضد ہے۔ آمریت میں فردِ واحد کا حکم چلتا ہے جو بادشاہ سلامت قرار پاتا ہے جبکہ جمہوریت میں ہر شخص کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور پارلیمان کے اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر اتھارٹیز اپنا اپنا کام حکومتی احکامات کے مطابق سرانجام دیتی ہیں۔
یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نظامِ آمریت میں بھی عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہوتے ہیں، وہاں بھی سب کچھ قانون کے مطابق ہوتا نظر آتا ہے لیکن درِ پردہ یا بعض اوقات کھلم کھلا بھی آمر کا حکم قانون کی ہر کتاب پر فوقیت رکھتا ہے۔
دوسری جانب جمہوری طرزِ حکومت میں عوامی نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ لوگ ووٹ دے کر جن نمائندوں کو سامنے لاتے ہیں وہ اراکینِ اسمبلی کہلاتے ہیں۔ یہی اراکینِ اسمبلی و سینیٹ آگے چل کر قائدِ حزبِ اختلاف، وفاقی وزراء، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور قائدِ ایوان سمیت دیگر اہم عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔
صدرِ مملکت اور وزیرِاعظم کے عہدے نظامِ جمہوریت میں سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں جن کے بعد وفاقی وزراء کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اراکینِ اسمبلی کو ہر سیاسی و قومی معاملے پر اپنی رائے دینے کا حق ہوتا ہے چاہے وہ حکومتی صف میں بیٹھے ہوں یا پھر حزبِ اختلاف کا حصہ ہوں۔ اِس طرح دونوں طرف کی رائے سامنے آجاتی ہے۔
جمہوری نظام کی قسمیں
نظامِ جمہوریہ کی دو بڑی قسمیں براہِ راست (ڈائریکٹ) جمہوریت اور بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) جمہوریت ہیں۔ بلا واسطہ جمہوریت صرف محدود رقبے کی ریاستوں میں قائم ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں عوام کی رائے کا اظہار براہِ راست حکومت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بڑے رقبے کی حامل ریاستوں میں یہ عملاً ناممکن سی بات ہے کہ بلا واسطہ یعنی براہِ راست جمہوریت قائم کی جائے کیونکہ اول تو کروڑوں کی آبادی والے ملک سے رائے حاصل کرنا ایک دل گردے کا کام ہوتا ہے اور دوم یہ کہ رائے معلوم ہوجائے، تب بھی ضروری نہیں کہ حکومت پر اسے نافذ کرنا خود قوم کے مفادات کے مطابق ہو۔
قدیم یونان کی شہر ریاستوں کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں سوئٹزرلینڈ کے چند شہر اور امریکا کی نیو انگلینڈ جیسی چند بلدیات کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بلا واسطہ جمہوریت اب بھی موجود ہے تاہم یہ بات پاکستان، بھارت، چین، جاپان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھنے میں نہیں آتی۔
دنیا بھر میں زیادہ تر جمہوریت کی جو قسم رائج ہے اسے بالواسطہ یا اِن ڈائریکٹر جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ یہاں اراکینِ اسمبلی عوام کی رائے سے منتخب ہو کر قانون سازی پر بحث و تمحیص کرتے ہیں اور صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم کو اختیار دیاجاتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور قومی معاملات پر فیصلے کریں۔
حقیقی دورِ جمہوریت
اٹھارہویں صدی عیسوی کے شروع سے جو دورِ حکمرانی شروع ہوا اور آج تک جاری و ساری ہے، اسے ہم حقیقی دورِ جمہوریت قرار دے سکتے ہیں جس کی مثال قدیم یونانی تاریخ میں دستیاب ہے لیکن بعد ازاں بادشاہت زور پکڑ گئی اور ایک دوسرے پر حملوں کی ایک طویل اور تکلیف دہ تاریخ سامنے آئی۔
نئے طرزِ حکومت یعنی جمہوریت نے 18ویں صدی عیسوی میں کہیں جا کر استحکام حاصل کیا جس کی بنیاد آزاد خیالی پر رکھی گئی ہے یعنی اِس نظام کے تحت مذہب کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تاہم بعض ممالک جن میں پاکستان اور ایران شامل ہیں خود کو اسلامی جمہوریہ کہہ کر مذہبی اصولوں کو بھی اِس میں شامل کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کیا ہے؟
پاکستان سمیت بعض ممالک جمہوری نظام کی بنیادوں کو آزاد خیال سمجھتے ہیں، اِس لیے جمہوریت کیلئے محتاط طرزِ عمل اپناتے ہوئے خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان واحد اسلامی جمہوریہ نہیں ہے۔
وطنِ عزیز کے ہمسایہ ممالک جن میں ایران اور افغانستان شامل ہیں خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتے ہیں۔ یہ تین ممالک ہوئے جن کے بعد موریطانیہ بھی خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے جس سے ایسے ممالک کی مجموعی تعداد 4 ہوجاتی ہے تاہم دیگر اسلامی ممالک خود کو اسلامی جمہوریہ قرار نہیں دیتے۔
ملکِ خداداد پاکستان سمیت خود کو اسلامی جمہوریہ کہنے والے ممالک دراصل اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور جمہوری طرزِ حکومت اختیار کرتے ہیں۔ یہی اسلامی جمہوریہ کہلانے کا حقیقی مقصد ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ صورتحال
سن 1947ء میں جب وطنِ عزیز معرضِ وجود میں آیا تو بابائے قوم نے واضح الفاظ میں اس کے بارے میں قیامِ پاکستان سے قبل ہی فرما دیا تھا کہ یہاں اسلامی شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا، تاہم بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی اقتدار کے ایوانوں میں رسہ کشی شروع ہو گئی۔ وڈیرہ شاہی ایک طرف تھی، لبرلز دوسری جانب اور تیسری جانب قائدِاعظم کا مجوزہ نظامِ حکومت لانے کے حامی افراد جو ملک پر شریعتِ اسلامی کا نفاذ چاہتے تھے۔
بعد ازاں ملک کی باگ ڈور فوج کے ہاتھوں میں بھی رہی۔ ملک پر کئی سال تک عسکری حکمرانی قائم رہی۔ سن 1958ء سے 1971، سن 1977 سے 1988ء ، 1999 سے 2008ء تک پاکستان پر فوج نے کسی نہ کسی صورت میں حکومت کی جسے ڈکٹیٹر شپ قرار دیا جاتا ہے۔
حساب کیا جائے تو کم و بیش 35 سے 40 برس تک فوج کسی نہ کسی صورت اقتدار کا حصہ رہی اور جب جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تب جمہوریت کے علمبردار بالخصوص اپوزیشن عسکری حکام پر جمہوری حکومت پر اثر انداز ہو کر حکومت میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ اس میں کوئی سچائی ہو۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ قبل ازیں پاکستان میں کوئی بھی جمہوری حکومت 5 سال پورے نہیں کرسکی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے سن 2013ء میں پہلی بار جمہوری حکومت کے 5 سال پورے کیے جس سے ملک میں جمہوری راج کے اثر رسوخ کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
بعد ازاں ن لیگ کا دورِ حکومت آیا تو وزیرِ اعظم نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا جس کا ذمہ دار پاک فوج کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ انہیں عدلیہ نے اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں سمیت کرپشن کے دیگر الزامات کے تحت نااہل کیا۔پھر شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم بنے اور ایک بار پھر 5 سال پورے ہوئے۔
تازہ ترین صورتحال کے مطابق ملک میں جمہوریت وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں فروغ پاتی نظر آتی ہے کیونکہ ملک میں صدارتی نظام اور اسلامی نظام کی صداؤں کے باوجود انہوں نے جمہوری طرزِ حکومت کو ہی برقرار رکھنا پسند کیا۔
تاہم دوسری جانب جمہور کی رائے بری طرح متاثر ہے۔ قومی فیصلوں میں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت قانون منظور کروانے کی بجائے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیتی ہے۔ ایسی ہی بے شمار شکایات مزید بھی ہیں تاہم اختلافِ رائے کو ہی جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔