بجلی کے نرخوں میں اضافہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت نے اگلے مہینے سے بجلی کے نرخوں میں 1 روپیہ 39 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بالآخر عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کے لون پروگرام کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں۔ وزیر خزانہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد شوکت ترین نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے اور اس حوالے سے آئی ایم ایف کو قائل کریں گے کہ وہ گردشی قرضے کو دوسرے ذرائع سے کم کرے۔ وزیراعظم نے آئندہ سال جنوری تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اپنے واشنگٹن دورے کے دوران وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی کے نرخ بڑھانے کے مطالبے سے افراط زر بڑھے گا، اور یہ نقطہ انہوں نے مختلف اجلاسوں کے دوران بھی اٹھایا تھا۔ گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں اور حکومت کو فنڈز کی ضرورت ہے۔ اس لیے ان کے پاس ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

نیپرا نے اس سے قبل اگست کے لیے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی وجہ سے بجلی کے نرخ میں 1 روپیہ 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تھا۔ مہنگائی کی ماری عوام کو اس مہینے زیادہ بجلی کے بلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی زیادہ سے زیادہ قیمت 24 روپے 33 پیسے فی یونٹ تجویز کی گئی ہے جبکہ 72 ارب روپے کی سبسڈی واپس لی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی سے ملک میں افراط زر کی ایک نئی لہر پیدا ہو جائے گی۔ کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت راتوں رات 15 روپے بڑھ کر 1775 روپے فی پانچ کلو گرام ہوگئی ہے۔ رواں ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک اور اضافہ متوقع ہے کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ پاکستان کو گیس کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے اور اس وجہ سے تمام جاری اور موجودہ گیس اسکیمیں بند کر دی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف نے پہلے ہی 525 ارب روپے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ حکومت نے 300 ارب روپے سے زائد سیلز ٹیکس کی چھوٹ واپس لینے کا عندیہ دیا تھا۔ قرض پروگرام کی بحالی کا انحصار تین اہم تقاضوں پر ہے: بجلی کے نرخوں میں اضافہ ، اضافی ٹیکس لگانا اور سرکاری شعبے کے اخراجات میں کمی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عوام پر ہونے والے منفی اثرات کو سمجھے بغیر مطمئن ہوکر ان مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔

Related Posts