پرویز مشرف کس مقدمے میں مطلوب ہیں، کیا اُن کی وطن واپسی ممکن ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پرویز مشرف کس مقدمے میں مطلوب ہیں، کیا اُن کی وطن واپس ممکن ہے؟
پرویز مشرف کس مقدمے میں مطلوب ہیں، کیا اُن کی وطن واپس ممکن ہے؟

سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی کی خبریں آج کل ہر طرف گردش کررہی ہیں۔

وہ اس وقت دبئی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں۔ پچھلے دنوں اُن کے انتقال کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس کے بعد اُن کے اہلخانہ کا بیان سامنے آیا کہ وہ زندہ ہیں لیکن اُن کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کو ایسی کونسی نایاب بیماری ہے اور کیا ایسی وجہ ہے کہ وہ دبئی میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں؟

پرویز مشرف کا کیریئر

پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، 1964 میں پاکستان کی بری فوج میں شامل ہوئے اور1965 اور 1971 کی جنگوں میں شرکت کی، 7 اکتوبر 1998 کو بری فوج کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے۔

12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے بحیثیت آرچیف چیف اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا، اور ایک متنازع ریفرنڈم کے انعقاد سے خود کو صدر منتخب کرایا اور پھر بعد میں اسمبلیوں سے اس فیصلے کی توثیق کرا لی۔ تاہم 9 سال بعد مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2007ء کو سبکدوش ہو گئے، اور اس وقت دبئی میں مقیم ہیں۔

پرویز مشرف کس بیماری میں مبتلا ہیں؟

سابق صدر پرویز مشرف ایمیلوئیڈوسس نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔ برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے این ایچ ایس کے مطابق یہ بیماری نسل در نسل منتقل نہیں ہوتی اور اس میں اعضا اور ٹشوز میں غیر معمولی پروٹین بننا شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اعضا کی ناکامی کا خطرہ ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اُن میں سے بعض میں ایمیلوئیڈ پروٹین گردے میں بننا شروع ہوجاتے ہیں جس سے کڈنی فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایمیلوئیڈ پروٹین اگر دل میں بننا شروع ہوجائیں تو اس سے پٹھے سخت ہوسکتے ہیں اور جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق جگر، تلی، نظام عصبی و ہاضمے میں بھی یہ پروٹین جمع ہوسکتے ہیں۔

اس بیماری کی سب سے عام شکل اے ایل ایمیلوئیڈوسس کی علامات میں چکر آنا، ہاتھ پاؤں سن ہوجانا، متلی اور آسانی زخم بن جانا شامل ہیں۔ این ایچ ایس کے مطابق ایمیلوئیڈوسس کا کوئی علاج نہیں اور ان پروٹین کو براہ راست نکالا نہیں جاسکتا مگر ایسے طبی طریقے موجود ہیں جن میں علامات کا علاج کیا جاتا ہے یا ان پروٹینز کو جسم میں بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔

پرویز مشرف جلا وطن کیوں ہیں؟

2013 میں پرویز مشرف کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف اقتدار میں آگئے، اس دوران سپریم کورٹ نے مشرف کیخلاف آئین شکنی کی پاداش میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی حکومتی درخواست منظور کی تو اس کے بعد مشرف کیلئے مقدمات میں کارروائیوں سے بچنے کے امکانات کا دائرہ کم ہونا شروع ہوگیا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے مشرف پر لال مسجد، اکبر بگٹی، لا پتا افراد سمیت کئی کیسز بنائے گئے، تاہم سنگین غداری کیس بننے کے بعد ان کیلئے حالات کا سامنا کرنا بڑا مشکل ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس بات کا امکان بڑھتا چلا گیا کہ وہ اس کیس میں گرفتار کر لیے جائیں گے۔ جو کہ بحیثیت سابق آرمی چیف ہونے کے باعث ادارے کیلئے بھی ایک امتحان تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اُس وقت تک مشرف یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ مقدمات اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن جب انہوں نے حالات کو بگڑتے دیکھا اور یہ دیکھا کہ ادارہ بھی انہیں بچانے میں ناکام ہیں، چنانچہ حالات کچھ ایسے بنادیے گئے کہ اُن کی بیماری کا وختہ ڈال کر مشرف کی بیرون ملک منتقلی کی راہ ہموار کر لی گئی اور یوں وہ پاکستان سے دبئی اپنے گھر منتقل ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر انتقال کی خبر

10جون کو اچانک ٹوئٹر پر کچھ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ پرویز مشرف انتقال کرگئے ہیں، یہ بڑی دھماکے دار ” خبر تھی، چنانچہ ٹوئٹر سے نکلی یہ خبر کوٹھوں چڑھ گئی اور چند ہی لمحوں میں ہر جگہ پر موضوع گفتگو بن گئی، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجٹیل میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر طرف پرویز مشرف کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

تاہم کچھ ہی گھنٹوں بعد مشرف کے خاندان اور قریبی رفقا نے باقاعدہ خبر جاری کرتے ہوئے ان کی موت کی تردید کردی، تاہم اس کے ساتھ اس بات کی تصدیق کی کہ سابق صدر اسپتال میں داخل ہیں مگر وہ جس بیماری کا شکار ہیں، اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔

وطن واپسی کی خواہش

سابق صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنے قریبی لوگوں سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام پاکستان میں گزارنا چاہتے ہیں، اس بارے میں سابق صدر کے ڈاکٹر محمد امجد کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف ایمیلوئیڈوسس نامی بیماری مبتلا ہیں اور اس وقت اُن کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ بعدازاں انہوں نے آرمی چیف اور وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ وہ پرویز مشرف کی وطن واپسی کو ممکن بنائیں۔

نواز شریف کا بیان

سابق صدر پرویز مشرف کے سب سے بڑے حریف نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو حکومت اُن کی وطن واپسی کیلئے ہرممکن اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بلکہ میں تو اُن کی صحت یابی کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں۔

آرمی کا مؤقف

سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ سابق صدر، سابق چیف ایگزیکٹو آف پاکستان اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی صحت خراب ہے، ان کی واپسی کیلئے ان کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی صحت بہت خراب ہے۔ ان کی وطن واپسی کیلئے ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ واپسی کا فیصلہ ان کے خاندان اور ڈاکٹرز نے کرنا ہے۔

کیا مشرف وطن واپس آجائیں گے؟

ماہرین کے مطابق جس طرح کے حالات ہیں وہ یہی اشارہ دے رہے ہیں کہ بہت جلد پرویز مشرف وطن واپس آجائیں گے لیکن یہاں پر اس بات کا بھی خیال رہے کہ اُن کی وطن واپسی پر ملک میں ایک بڑا سنگین مقدمہ بھی ان کا منتظر ہوگا، جس میں پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار بعد وفات ان کی لاش کو بھی سزا دینے کا آرگومنٹ دے چکے تھے۔

سنگین بیماری اور سنگین قانونی مقدمے کے بیچ پھنسے ہوئے پرویز مشرف اگرچہ کوئی سیاسی اور سماجی اہمیت نہیں رکھتے اور پاکستانی معاشرتی اقدار کے تناظر میں انہیں ان کے سیاسی حریفوں کی جانب سے مثبت اور اچھے رویے کا ہی سامنا ہوگا، تاہم قانون کی نگاہ میں وہ بہرحال سنگین مقدمے کے مفرور مجرم ہیں۔

اگرچہ یہ طے نہیں ہوا کہ ان کی واپسی کب عمل میں آئے گی، تاہم یہ امر خارج از امکان نہیں کہ جلد منظر نامہ بدلتا نظر آئے گا اور انہیں ان کی خواہش کے احترام میں واپسی کیلئے قانون اور ان کے سیاسی حریفوں کی طرف سے این آر او دے دیا جائے گا اور اُن کے مقدمے کا کیا فیصلہ ہوگا اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

Related Posts