عمران فاروق قتل کیس، ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
پینشن نہیں، پوزیشن؛ سینئر پروفیشنلز کو ورک فورس میں رکھنے کی ضرورت
Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

imran farooq murder
عمران فاروق قتل کیس،ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کی جانب سے 32 برطانوی گواہان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور کرلی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد نے گواہان کی فہرست عدالت میں پیش کی اور ان کے بیانات وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی درخواست دی جس میں عمران فاروق کی بیوہ بھی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت وکلا صفائی نے برطانوی گواہوں کے بیانات وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے پر اعتراض اٹھایا۔جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کیس میں ثبوت برطانیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی قانونی معاونت کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گواہوں کے بیانات کے لیے لندن میں انتظامات جاری ہیں، انتظامات مکمل ہوجائیں تو ہم روزانہ کی بنیاد پر بیان ریکارڈ کروائیں گے۔تاہم جج شاہ رخ ارجمند نے فہرست میں غیر ضروری نام شامل ہونے پر اعتراض اٹھایا جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ موقع آنے پر غیر ضروری گواہوں کو ترک کر دیا جائے گا۔

ایف آئی کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت کا آرڈر اٹارنی جنرل کو بھجوائیں گے جو یو کے بارڈر ایجنسی کو مطلع کریں گے اور یہ تمام کارروائی وزارت خارجہ کے ذریعے ہو گی۔بعدازاں دونوں فریقین کی جانب سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست منظور کرلی۔

خیال رہے کہ 2 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں 3 برطانوی گواہان بھی اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تھے جن میں برطانوی پولیس کے چیف انسپکٹر، سارجنٹ اور کانسٹیبل شامل تھے۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے چیف انویسٹی گیشن افسر اسٹیورڈ گرین وے نے بتایا تھا کہ عمران فاروق کیس کی تفتیش کا نام ‘‘آپریشن ہیسٹار ‘‘ رکھا ہے۔چیف انویسٹی گیشن آفیسر نے عدالت میں ملزم محسن علی کی برطانیہ پہنچنے سے متعلق دستاویزات، ای میلز، ان کا تعلیمی ریکارڈ، کالج حاضری ریکارڈ پیش کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے آلہ قتل، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، ایک اینٹ، 2 تیز دھار چاقو، فنگر پرنٹس کرائم سین کا خاکہ اور نقشہ بھی عدالت میں پیش کیا تھا۔یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس،برطانوی پولیس نے انتہائی اہم شواہد پیش کر دئیے

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

Related Posts