نبئ آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اقوال و ارشادات دینِ اسلام کی اہم ترین بنیادوں میں سے ایک ہیں۔ اسلام میں سب سے پہلے قرآن اور پھر سنتِ نبوی ﷺ یا حدیث سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور حج کی اہمیت دونوں کے ذریعے سے واضح کر دی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔آئیے حج کی دینی اہمیت اور روزمرہ زندگی میں افادیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
حج کی دینی اہمیت
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حج کو دینِ اسلام کے بنیادی اراکین میں شامل کیا گیا جو حدیث سے ثابت ہے۔ ہر سال مسلمان ذوالحجہ کی 8 تاریخ سے 12 تاریخ تک حج کی ادائیگی کیلئے مختلف فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
یہ مجموعۂ عبادات مجموعی طور پر حج اور تمام تر عبادات مناسکِ حج کہلاتی ہیں۔ اِسلام کے مطابق حج ہر صاحبِ استطاعت یعنی مناسب اخراجات کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بالغ مسلمان پر زندگی میں 1 بار فرض ہے۔
قرآنِ پاک میں سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 97 میں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کیلئے لوگوں پر اِس گھر (کعبۃ اللہ) کا حج (اس شخص پر) فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو اور جو (اس کا) منکر ہو تو بے شک اللہ تعالیٰ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔
خواتین کیلئے جہاد
ابن ماجہ کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: ہمیں معلوم ہے کہ جہاد سب سے افضل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں؟
سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں۔(خواتین کیلئے) عمدہ ترین جہاد حجِ مبرور ہے۔ ابنِ ماجہ کی اور روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کیا عورتوں پر بھی جہاد فرض ہے؟ فرمایا : اُن پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں خونریزی نہیں اور وہ حجِ مبرور ہے۔
استطاعت کے باوجودحج نہ کرنے پر وعید
کچھ لوگ استطاعت، جسمانی صلاحیت اور پیسہ ہونے کے باوجود حج نہیں کرتے جس پر اسلام میں سخت وعید آئی۔ حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ جس شخص کے پاس حج کے سفر کیلئے ضروری سامان موجود ہو اور سواری بھی میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے، وہ اگر پھر بھی حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔
حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ حج نہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا وہ نافرمان بندہ ہے جس کے اسلام لانے یا صاحبِ ایمان ہونے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ دینِ اسلام نام ہی اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے کا ہے۔ جنت یا جہنم کے ساتھ ساتھ کسی شخص کے کافر یا مومن ہونے کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فریضۂ حج کی ادائیگی کا مختصر طریقہ
ہر سال مسلمان افراد بڑی تعداد میں جمع ہو کر سعودی عرب جا پہنچتے ہیں۔ معین میقاتِ حج سے احرام باندھنے کے بعد حجاجِ کرام کعبۃ اللہ کی زیارت کرتے ہیں جہاں طواف و قدوم کیا جاتا ہے۔
دورانِ طواف حجاج کرام باآوازِ بلند لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں جس کا مقصد سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی ہے۔
حجاجِ کرام طواف و قدوم کے بعد منیٰ روانہ ہوجاتے ہیں جہاں یوم الترویہ گزارا جاتا ہے۔پھر میدانِ عرفات میں 1 روز کا وقوف کیا جاتا ہے۔ یہ دن یومِ عرفہ، یومِ سعی اور عیدِ قربانی کہلاتا ہے۔
اسی روز مسلمان حلق و قصر کرواتے ہیں یعنی بالوں کو ترشواتے ہیں یا سر مکمل طور پر مونڈ دیاجاتا ہے۔ پھر حجاج شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں جس کے بعد مکہ مکرمہ میں طواف افاضہ ہوتا ہے۔
طوافِ افاضہ کے بعد حجاجِ کرام منیٰ جاتے ہیں جہاں ایامِ تشریق گزارے جاتے ہیں جس کے بعد مکہ واپسی ہوتی ہے۔ طوافِ وداع کرنے کے بعد مناسکِ حج مکمل ہوجاتے ہیں۔
رواں برس حج کی صورتحال
موجودہ دور میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ لاک ڈاؤن کے باعث حج کو محدود کردیا گیا ہے۔ پہلے لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ اسلام حج کی ادائیگی کیلئے دنیا بھر کے مسلم ممالک سے سعودی عرب پہنچتے تھے، تاہم رواں برس اِس کی اجازت نہ دی جاسکی۔
وائرس کی روک تھام کے پیشِ نظر سعودی عرب میں پہلے سے موجود حجاجِ کرام کو حج کا موقع دیا گیا ہے جو سماجی فاصلے اور دیگر ایس او پیز پر عمل پیرا ہو کر حج کے فرائض سرانجام دیں گے جن کی تعداد لاکھوں کی بجائے ہزاروں تک محدود ہو گئی ہے۔
روزمرہ زندگی میں حج کی افادیت
مسلمان اسلام کیلئے دین کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی طریقۂ زندگی، جس میں حج عالمِ اسلام کے اتحاد کا مظہر بن کر سامنے آتا ہے۔ جب دنیا کے ہر مسلم ملک سے تعلق رکھنے والا انسان لبیک اللھم لبیک اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتا ہے تو عالمِ انسانیت خدا کے سامنے سربسجود دکھائی دیتی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ یہ عاشقانہ عبادت ہے۔
عاشقانہ عبادت کا خطاب حج کو اِس لیے دیا گیا کیونکہ عازمِ حج کا ہر عمل دیوانگی کا مظہر ہوتا ہے۔ حج میں ایک ہی وقت میں انسان روحانی، بدنی اور مالی تینوں پہلوؤں کے ذریعے شریک ہوتا ہے جو کسی دوسری عبادت میں ممکن نہیں۔
مسند احمد کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے۔ ابوداؤد میں ہے کہ حج کا ارادہ رکھنے والے شخص کو جلدی کرنی چاہئے۔
سننِ سعید کے مطابق خلفائے راشدین میں شامل اہم ترین صحابئ رسول ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج نہ کرنے والے مسلمانوں پر جزیہ مقرر کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک ایسے لوگ مسلمان نہیں تھے۔
سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے جس شخص نے حج کیا اور اس دوران اس نے کوئی لغو بات یا گناہ نہ کیا تو وہ ایسا (پاک ہو کر)لوٹتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔ (بخاری و مسلم)