آئی ایم ایف نے پاکستان سے پیٹرول پر مزید ٹیکسز کا مطالبہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں قیمت 47 روپے فی لیٹر بڑھ سکتی ہے۔
دوسری جانب پیٹرولیم ڈویژن نے حال ہی میں پیٹرولیم لیوی 10 روپے بڑھانے کے مقاصد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیوی میں اضافہ بجلی سستی کرنے کیلئے کیا گیا تھا لیکن یہ فیصلہ گلے پڑنے کا خدشہ ہے۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن میں حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات پر تین فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور آئی تاہم اس پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ آئی ایم ایف کی سفارش ہے کہ 18 فیصد کا سیلز ٹیکس عائد کیا جائے جو باقی مصنوعات پر عائد ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جس سے ایم ایس اور ایچ ایس ڈی کی قیمتوں میں47 روپے فی لیٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق آئی ایم ایف نے 5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی بھی عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جس سے ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس طرح سیلز ٹیکس اور کاربن لیوی عائد ہونے سے پیٹرول کی قیمت 53 روپے فی لیٹر بڑھ جائے گی۔
واضح رہے کہ اس وقت پیٹرول پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر فیصد ہے۔ یعنی کوئی سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا۔ پیٹرولیم لیوی ہی واحد بڑا ٹیکس ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی پاکستان درآمد کے وقت اس پر کسٹم ڈیوٹی بھی عائد ہوتی ہے۔
پیٹرولیم لیوی میں حالیہ اضافہ 10 روپے کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ جمع ہونے والی رقم کو بجلی سستی کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں بجلی کی قیمتوں میں لگ بھگ ساڑھے 7 فیصد کمی کی تھی۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے موٹر اسپرٹ (MS) اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (HSD) پر 10 روپے فی لیٹر اضافی پیٹرولیم لیوی (PL) عائد کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ 1.71 روپے کمی کے لیے 58.6 ارب روپے اضافی جمع کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے، تاہم پٹرولیم سیکٹر اسے غیر منصفانہ بوجھ قرار دے رہا ہے۔
پٹرولیم ڈویژن نے 7 اپریل 2025 کو پاور ڈویژن کو باضابطہ طور پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ یہ خط پاور ڈویژن کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کو پیش کی گئی سمری کے جواب میں بھیجا گیا، جس کا عنوان ”بجلی کے نرخوں میں توازن“ تھا۔
16 مارچ 2025 کو عالمی قیمتوں میں کمی کے بعد حکومت نے پیٹرولیم لیوی کو 60 روپے سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کر دیا۔ پیٹرولیم ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ اگر باقی مالی سال کے دوران عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو حکومت کو یا تو ریٹیل قیمتیں بڑھانی ہوں گی یا پیٹرولیم لیوی کی شرح کم کرنی ہوگی، جس سے مطلوبہ آمدنی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ ہائیڈرو پاور کی مستقل بنیادوں پر دستیابی بھی ایک مسئلہ ہے۔
وزارت خزانہ نے مالی سال 2024-25 کے لیے 1.281 کھرب روپے پیٹرولیم لیوی کے ہدف کا تعین کیا ہے، جس میں سے فروری 2025 تک 744 ارب روپے یعنی 58 فیصد جمع ہو چکے ہیں۔
پٹرولیم ڈویژن نے تیل کی صنعت کو درپیش مالی مشکلات کو بھی اجاگر کیا۔ پچھلے برسوں میں ایم ایس اور ایچ ایس ڈی پر سیلز ٹیکس کو صفر کر دیا گیا تھا تاکہ ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (OMCs) کو ان پٹ ٹیکس کی اضافی پریشانی سے بچایا جا سکے، جس سے تقریباً 35 ارب روپے کا نقصان ہوا۔