اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری رپورٹ پر حکم امتناع ختم کرتے ہوئے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی،جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ دراصل موجودہ حکومت اور نیب کا امتحان ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں شوگرملزکیس میں چینی انکوائری رپورٹ کیخلاف دائردرخواست پر سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں دلائل دیئے اور کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کیلئے بنایا گیا، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف بھی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کارروائی کیلئے بڑی جرات اور عزم چاہیے، دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کارروائی کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے پانامہ کیس اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پانامہ کیس اورجعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جی آئی ٹی تشکیل دی۔ پاناما جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا۔
یہی وجہ تھی کہ شوگر انکوائری کمیشن میں حکومت نے تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے افسران شامل کیے۔خالد محمود خان نے کہا کہ بغیرکسی دلیل کے کہا گیا کہ انکوائری کمیشن تعصب پرمبنی ہے، انکوائری کمیشن کے کسی ممبر پر مفادات، سیاسی وابستگی کا الزام نہیں، کہا گیا ایک کمیٹی کے ممبر کی 22 گریڈ میں ترقی ہوئی تاہم کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ کمیٹی کے ممبران قابل افسران اورکسی بھی حکومت کا پریشرنہ لینے والے ہیں، کہا گیا کہ آگے چل کراس رپورٹ کا غلط استعمال ہوگا، مستقبل کے کسی مفروضے پر آج تحقیقات نہیں روکی جا سکتیں۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کا ٹاسک فیکٹ فائنڈنگ کے بعد اپنی سفارشات دینا تھا، انکوائری کمیشن نے اپنی دو طرح کی سفارشات دیں، انکوائری کمیشن نے فوری نوعیت کی کارروائی کے علاوہ طویل مدتی اقدامات کی بھی سفارش کی۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے ایسے ٹی او آرز کے تحت کام کیا کہ شوگر انڈسٹری کے تمام پہلو سامنے آ سکیں، کمیشن نے گنے کی کل پیداوار کا پتا لگانے کا فیصلہ کیا، شوگر ملز کاشتکاروں سے گنا کتنا اور کس قیمت پر خریدتی ہیں یہ سوال بھی تھا، گنے کی خرید کے بعد کرشنگ میں کتنا گنا جاتا ہے یہ بھی پتا کرنا تھا۔
انہوں نے کہاکہ متعلقہ ٹی او آرز کا مقصد معلوم کرنا تھا کہ چینی کی کوئی آف دی ریکارڈ خرید فروخت تو نہیں؟اٹارنی جنرل خالد محمود خان کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے کہا گیا کہ بھارتی عدالت کا ایک ایسے ہی کیس میں 1960 کا فیصلہ موجود ہے، بھارتی عدالت نے قرار دیا تھا کسی منظم جرم کا شک ہونے پر حکومت انکوائری کروا سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ انکوائری کی روشنی میں حکومت کارروائی کرنے یا نہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے، شوگر انڈسٹری حکومت کو اس کیس میں فریق مخالف کیوں سمجھتی ہے؟ چینی کی قیمتیں اوپر جانے سے حکومت نہیں، عوام متاثر ہوتے ہیں، حکومت اپنے لیے چینی نہیں خرید رہی کہ الزام لگایا جائے کہ انکوائری کا مقصد اپنے لیے فائدہ لینا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے چینی انکوائری رپورٹ پر شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی سے روکنے کا حکم امتناع ختم کردیا۔ عدالت نے تمام متعلقہ اداروں کو چینی انکوائری رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دیتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی رپورٹ پر کارروائی روکنے کی درخواست مستردکر دی۔