کراچی:سندھ کے صوبائی وزراء سید ناصرحسین شاہ، سعیدغنی اور امتیازشیخ نے ایم کیوایم پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کو پٹرولیم قیمتوں پر اعتراض ہے تو وفاق سے علیحدہ ہو،ایم کیوایم وفاق کا حصہ ہے ان کے فیصلوں سے خود کو لاتعلق نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی شوشے کے طور پر کچھ لوگوں نے اسمبلی کے باہر احتجاج کیاجو کہ سمجھ سے بالاتر تھا،اگر ان لوگوں کے دلوں میں کراچی کے لوگوں کا اتنا ہی درد ہے تو یہ بتائیں کہ وفاقی حکومت جس کے یہ اتحادی بھی ہیں ان سے کراچی کے لیے کیا مانگا،صوبائی بجٹ میں کراچی کوزیادہ اہمیت دی گئی ہے،سندھ حکومت نے بجٹ میں ملازمین، مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔
صوبائی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ کورونا کے باوجود حکومت نے عام لوگوں کو کیا ریلیف دیا،وزیراعلیٰ نے کہہ دیا ہے کہ کوئی نئی گاڑی نہیں لی جائیگی، فیلڈ افسران کو ضرورت کے تحت کچھ گاڑیاں دی جائیں گی۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان کو احتجاج کرنا ہی ہے تو وہ وفاقی حکومت کے خلاف کریں نہ کہ صوبائی حکومت کے خلاف،ایم کیو ایم والے وفاقی حکومت سے پوچھیں گے کہ کراچی کے لیے اعلان کردہ 162 ارب روپے کا پیکج کدھر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی پارٹی کے بارے میں کوئی کیا کہے جو اپنے ایک وفاقی وزیر کو ہی اون نہیں کرتی۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہاکہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کراچی اور حیدرآباد تک محدود ہے، انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندگان کو ایم کیو ایم پاکستان کے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے کراچی کے لیے کیا مطالبہ کیا۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا دھرنا نیشنل اسمبلی کے سامنے بنتا ہے نہ کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے سامنے، وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سید ناصر حسین نے کہا کہ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ بے تحاشا اضافہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے نے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کچھ روز میں پتہ چل جائے گا کہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں اتنا بے تحاشہ اضافہ کر کے کسے فائدہ پہنچایا گیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب پیٹرول سستا تھا تو عوام کو دستیاب ہی نہیں تھا. انہوں نے کہا کہ سستے پیٹرول کے حصول کے لیے جس طرح لوگ دربدر پھرتے رہے ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔