کراچی:پی ٹی آئی مرکزی رہنما و پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ کی سندھ ہیومن رائٹس کمیشن میں پیش ہوئے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے 2019 گھوٹکی الیکشن کے دوران حلیم عادل شیخ کے کو نوٹس بھیجا تھا سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے حلیم عادل شیخ پر انسانی حقوق کی خلافی ورزی کے الزام پر سوموٹو لیا تھا۔
جس پر پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ اپنے وکلا کی ٹیم ایڈووکیٹ شاہد سومرو و دیگر کی ساتھ پیش ہوئے اور اپنا جواب جمع کروایا۔ حلیم عادل شیخ نے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے اندر روزانہ سینکڑوں انسانی حقوق کی خراب ورزیاں ہورہی ہیں لیکن یہ غیر فعال کمیشن کبھی نوٹس نہیں لیتا۔
سندھ حکومت نے اپنی پارٹی کے حقوق کے لئے یہ کمیشن بنایا ہے۔ 2011 سے کروڑوں روپے سالانہ بجٹ پر سندھ ہیومن رائٹس کمیشن بنایا ہوا ہے۔ قانون کے مطابق ایک چیئرمین کی تین سال کی مدت ہوتی ہے ان کی ایک جسٹس صاحبہ کی تیسری مدت چل رہی ہے۔
پچھلے سال گھوٹکی الیکشن کو دھاندھلی کے ذریعے جیتنے کے لئے سندھ حکومت نے مختلف طریقے استعمال کئے تھے۔جب میں الیکشن میں گیا تو وہاں ایک دن میں مجھے پانچ نوٹس دیئے گئے۔
جب شہباز شریف نے کہا زرداری کو کھمبے پر لٹکاؤں گا، گھسیٹوں گا وہ بات ان کو بری نہیں لگی،اس کمیشن میں پیپلزپارٹی کے لوگ شامل ہیں سیاسی لوگوں کو دبانے کے لئے کمیشن بنایا گیا،حلیم عادل شیخ کی آواز بند کرانے کے لئے نوٹس دیئے جاتے ہیں،حملے کرائے جاتے ہیں،لیکن اللہ کے کرم سے ہر محاظ پر سرخرو ہوتا ہوں۔
ہر ماہ مجھے نوٹس دیئے جارہے تھے آج میں پہنچا ہوں۔ ان الزامات سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے میں بری ہوچکا ہوں۔ سندھ کے پ پ کے ایک ایم پی اے نے کہا قمبر والوں اپنے دماغ ٹھیک کر لو ووٹ پ پ کا ہے لیکن اس پر کوئی ہیومن رائٹس نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
جب معزز اسپیکر صاحب نے کہا ووٹ پر پیشاب کرتے ہیں تب ہیومن رائٹس نے کیوں سو موٹو ایکشن نہیں لیا۔ ایم پی اے چانڈیو نے کہا ٹکے ٹکے کے ووٹ کو حیثیت نہیں دیتے اس پر کچھ نہیں کیا گیا۔
ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کو کتوں سے کٹوایا گیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس پر بھی ہیومن رائٹس کمیشن نے کچھ نہیں کیا۔ سندھ میں لاشیں اور مریض گدھ گاڑیوں پر لے جاتے ہیں وہاں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے نوٹس نہیں لیا۔
شکارپور کے کھوکھر سے لیکر جھرک کے بچے بھی یاد ہونگے جن کی لاشیں گدھے گاڑی پر لے جائیں گئیں۔ تھر میں ہزاروں بچے مارے گئے کچھ ہوا؟ کچھ نہیں ہوا۔ سندھ میں عوام کو ایمبولنس تک نہیں ملتی تب سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کیوں نہیں نوٹس لیتا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے مسلسل سندھ میں خلاف ورزیاں ہورہی ہے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ سیلاب میں ہزاروں خاندان سڑکوں پر ہیں لیکن اس غیر فعال سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے کچھ نہیں کرنا۔ جیلوں میں ظلم ہورہا ہے منشیات بک رہی ہے کیا ہیومن رائٹس کمیشن نے کچھ کیا۔
سندھ میں بچے بچیوں سے زیادتیاں ہورہی ہیں ہاریوں کو خانگی جیلوں میں بند کیا جاتا ہے تب یہ کمیشن کہاں چلا جاتا ہے۔؟ فیکٹریوں پر دو دو ہزار پر بچوں اور بچیوں سے زبردستی مزدوری کروائی جاتی ہے کبھی کسی نے ایکشن لیا۔