انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک میں جاری سیاسی انتشار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رجحان جمہوریت، پارلیمان کی بالادستی اور دستور پسندی کیلئے مہلک ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی انتظامی کونسل نے اُبھرتے ہوئے معاشی عدم استحکام، آسمان کو چھوتی مہنگائی اور مزدور اور متوسط طبقے پر شدید اثر انداز ہو نے والے خوراک کے عدم تحفظ پر بھی فکر مندی کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سیاسی بے یقینی کا شکار ہے۔ کمیشن نے ملک کو درپیش اہم مسائل پر غیرجانبدارانہ اتفاق رائے کا مطالبہ کردیا۔
ایچ آر سی پی کی کونسل نے آبادی کو درپیش انسانی حقوق کے متعدد سنگین مسائل اجاگر کئے، جن میں گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، گلیشیئر کے پگھلنے سے آنیوالے سیلاب، پنجاب میں شدید گرمی کی حالیہ لہر، سندھ اور بلوچستان میں پانی کی شدید قلت اور صوبائی تنازعات، نقل مکانی اور ذرائع معاش کا نقصان شامل ہیں۔
کونسل کے اجلاس میں کہا گیا کہ کونسل کے مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان بھر میں پرامن مظاہرین کیخلاف پولیس کی بربریت کے واقعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ریاست مخالف الزامات پر سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں معمول کی کارروائی بن گئی ہیں۔
کمیشن کا کہا ہے کہ آزادیِ صحافت مسلسل دباؤ میں ہے اور صحافیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے، ریاست کو بلا جواز تشدد کے بجائے اظہارِ رائے کی آزادی، انجمن اور پرامن اجتماع کے حقوق کا احترام کرنا چاہئے۔
ایچ آر سی پی حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی، خاص کر بلوچستان، سندھ اور کے پی میں جو بات زیادہ تشویش کا باعث ہے، وہ یہ ہے کہ بلوچ اور پشتون طلباء کی جبری گمشدگی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
ایچ آر سی پی اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا جائے اور ریاست تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے کنونشن کی توثیق کرے۔
ایچ آرسی پی ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ مذہبی انتہاء پسندی کی بڑھتی لہر پر قابو پایا جائے اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ تصدق جیلانی کے 2014ء کے فیصلے کی روشنی میں اقلیتوں کے قومی کمیشن کو آئینی درجہ دیا جائے تاکہ یہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرسکیں۔