ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حالیہ منظور شدہ کم عمری کی شادی کے خلاف پارلیمانی بل پر اعتراض کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
ایچ آر سی پی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کم عمری کی شادی کے خلاف قانون بچوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے اور نابالغ بچیوں کے حقوق کی پامالی روکنے کے لیے اس قانون پر فوری عملدرآمد ناگزیر ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے زور دیا کہ بچوں کے تحفظ جیسے نازک مسئلے کو مذہبی تنازع میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ کم عمری کی شادی کو روکنے اور بچوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنے آئینی و بین الاقوامی فرائض پورے کرے۔
ایچ آر سی پی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یک طرفہ مذہبی تشریحات کو قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جا سکتا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کم عمری کی شادی کا خاتمہ قانونی و اخلاقی طور پر ایک ناگزیر تقاضا ہے اور بچوں کے تحفظ کا وعدہ پورا کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سینیٹ نے اسلام آباد میں کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل منظور کیا تھا، جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بل میں شامل ایسی دفعات جو 18 سال سے کم عمر کی شادی کو زیادتی قرار دیتی ہیں اور اس پر سزا تجویز کرتی ہیں، غیر اسلامی ہیں۔