گوانتانامو جیل کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن کیوبا کے انتہائی جنوب مشرق میں واقع گوانتاناموبے میں واقع اس جیل پر بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے۔
گوانتا نامو بے کی اس جیل میں تشدد کے کیسے ناقابل برداشت اور انسانیت سوز طریقے اپنائے جاتے رہے ان کی منظر کشی سامنے نہیں آئی تھی۔ بند کمروں میں تشدد اور اذیت کے نت نئے اور خوفناک حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
العربیہ کے مطابق گوانتا نامو کے ایک قیدی “ابوزبیدہ” نے پہلی مرتبہ درجنوں ڈرائنگز پیش کی ہیں جو اس نے اپنے ہاتھ سے اس امریکی حراستی کیمپ میں تشدد کے طریقوں کے بارے میں بنائی ہیں۔ اس امریکی حراستی کیمپ کا ایک حصہ سی آئی اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی حصہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد گرفتار افراد پر تشدد بھی کیا جاتا رہا۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ابو زبیدہ کی بنائی گئی ڈرائنگز کی تعداد 40 ہے اور یہ 2002 سے لیکر 2006 کے درمیان سی آئی اے کے اپنائے گئے وحشیانہ طریقوں کی جامع اور تفصیلی دستاویز ہیں۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ طریقے تمام بین الاقوامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ابو زبیدہ نے جو تصویریں بنائیں اور بعد میں اپنے ایک وکیل پروفیسر مارک ڈینبو کو بھیجیں۔ ان میں تشدد، جنسی اور نسلی توہین اور طویل نفسیاتی دہشت کی بھیانک کارروائیاں دکھائی گئی تھیں۔

مذکورہ وکیل نے سیٹن ہال یونیورسٹی سکول آف لا کے پالیسی اینڈ ریسرچ سینٹر میں اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر اس بدنام زمانہ جیل اور دیگر خفیہ انٹیلی جنس حراستی مراکز میں تشدد کے بارے میں ایک جامع رپورٹ میں زبیدہ کی تصاویر اور شہادتیں شامل کی ہیں۔
ڈینبو نے کہا کہ ابو زبیدہ امریکی ٹارچر پروگرام کا پہلا شکار ہے۔

واضح رہے کہ 52 سالہ ابو زبیدہ کو مارچ 2002 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر اسے کئی خفیہ انٹیلی جنس مقامات کے درمیان منتقل کیا جاتا رہا۔ پولینڈ، لتھوانیا اور دیگر مقامات سے ہوتا ہوا اسے 2006 میں گوانتاناموبے میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں وہ کسی استغاثہ کے بغیر اور کسی جرم میں ملوث نہ ہونے کے باوجود زیر حراست ہے۔
ان تصاویر میں سے ایک تصویر تابوت پر مشتمل ہے۔ اس تصویر کو باریک بینی سے بنایا گیا ہے۔ تصاویر میں نقاب پوش ایجنٹوں کو جسمانی طور پر اسے عصمت دری کی دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ان تصاویر میں تشدد اور زبردستی کھانا کھلانے کے دیگر پرتشدد طریقے بھی دکھائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ قیدی کو تابوت میں ڈال کر اس میں پانی چھوڑا جارہا ہے۔ ایک منظر میں قیدی کے کانوں پر ہیڈ فون لگانا اور آواز کے حجم کو اس حد تک بڑھایا جارہا ہے جو اس کے ذہن کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
ان مناظر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پچاس کی دہائی کے آدمی کو اس کے تفتیش کاروں کے سامنے برہنہ کر کے لوہے کی زنجیروں سے باندھا گیا اور اس کی تذلیل کی جارہی ہے۔ تفتیش کاروں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ قیدی کو 83 مرتبہ نقلی ڈوبنے کی کارروائی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس تجربے کے بارے میں ابوزبیدہ نے اپنے وکیل کو لکھا تھا میں سارا دن ڈوبنے سے گھبراتا رہا تھا۔
سن 2014 کی سینیٹ کی رپورٹ کے خلاصے کے مطابق کم از کم 119 افراد گوانتاناموبے میں اس خوفناک پروگرام کا شکار ہو چکے ہیں۔