لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں، بیمار بچوں کے ساتھ والدین بڑی تعداد میں پہنچے، جو پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں فضائی آلودگی کے بحران کی وجہ سے نوجوان مریضوں میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
محمد قدیر نے، اپنی تین سالہ بیٹی کو گود میں لئے اپنی روداد سنائی، جس کی بیٹی کو نیبو لائز کیا جارہا تھا، جوکہ آلودگی کے باعث شدید متاثر ہوئی تھی۔
رامین اور اس کی ایک سالہ بہن عنایہ ان بے شمار بچوں میں سے دو ہیں جو آلودگی سے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ صحت کے حکام کا تخمینہ ہے کہ پچھلے مہینے میں ہوا کے بگڑتے معیار کی وجہ سے سانس کے مسائل میں مبتلا بچوں کے مریضوں میں قابل ذکر 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لاہور کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا، اب زہریلے سموگ کی لپیٹ میں ہے، جس نے گزشتہ سال دنیا کی بدترین ہوا کا معیار رکھنے کا مشکوک اعزاز حاصل کیا۔
نومبر میں درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ہوا کا معیار گر گیا۔ سوئس گروپ نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ 30 دنوں میں سے ہوا کے معیار کی سطح ‘خطرناک’ یا ‘انتہائی غیر صحت بخش’ دیکھی گئی۔
سر گنگا رام ہسپتال کے شعبہ اطفال کی سینئر رجسٹرار ڈاکٹر ماریہ افتخار نے ریمارکس دیے کہ صورتحال پچھلے سالوں کے مقابلے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ بچوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔