پاکستانی خاتون کیسے سعودی خصوصی بچوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک پاکستانی خاتون نے سعودی عرب میں جدہ میں ایک مرکز قائم کرکے خصوصی ضروریات والے بچوں کی زندگیوں کو بدلنے کے مشن کا آغاز کیا جو خصوصی تربیت اور علاج فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد ان بچوں کو معاشرے میں خودمختار طور پر اپنی زندگی گزارنے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔

اصل میں کراچی سے تعلق رکھنے والی فائزہ عبدالعزیز 1970 کے عشرے میں اپنے والد کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوگئیں جب وہ صرف دو سال کی تھیں۔ 2013 میں انہوں نے بچوں کے لیے انڈیپنڈنٹ لرننگ سینٹر (آئی ایل سی) کی بنیاد رکھی جو سعودی وزارت برائے سماجی امور میں ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر رجسٹرڈ تھا۔

آئی ایل سی تین زبانوں میں تربیتی پروگرام فراہم کرتا ہے — انگریزی، اردو اور عربی — یہاں مقامی اور تارکینِ وطن دونوں کمیونٹیز کے ایسے بچوں کو داخل کیا جاتا ہے جو نشوونما میں تاخیر، غیر معمولی فعالیت (ہائپر ایکٹیویٹی) اور آٹزم سے نبردآزما ہیں۔ یہ سب مسائل ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

تصویر بشکریہ انڈیپنڈٹ لرننگ سنٹر جدہ

تنظیم کے بانی سی ای او عبدالعزیز نے کہا “ہم خصوصی ضروریات والے بچوں اور ان کے خاندانوں کو آٹزم میں مداخلت کی تھراپی، گویائی اور زبان کی تھراپی، سکول تیاری پروگرام، سماجی مہارت کی تربیت، تعلیمی مدد، والدین کی تربیت اور اسی طرح کی دیگر مدد فراہم کرتے ہیں۔”

العربیہ کے مطابق خصوصی بچوں کی ضروریات کو سمجھنے کی طرف ان کا سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے 2007 میں ایک اور جگہ پر کام کرنا شروع کیا۔ اس مرحلے کے دوران انہوں نے ان بچوں کے ساتھ مؤثر طریقے سے مشغول ہونے کی تربیت حاصل کی۔

عبدالعزیز نے نوٹ کیا کہ متعدد تارکین وطن خاندان – بنیادی طور پر پاکستانی کارکنان – نے اِن دنوں اُن سے رابطہ کیا۔ انہیں مقامی سعودی مراکز میں اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے چیلنجز درپیش تھے جن کی وجہ زیادہ قیمتیں، گھر میں حفظان صحت کے معیارات، زبان کی رکاوٹیں، مواصلاتی مسائل اور دیگر ضروریات تھیں۔

یہ خاندان میرے پاس آتے رہے، اپنے بچوں کے لیے مدد مانگتے رہے۔””انہوں نے بات کو جاری رکھا۔

انہوں نے مزید کہا، “2010 میں میں نے ایسے تارکین وطن خاندانوں کے بچوں کے لیے شام کے تربیتی سیشن کا آغاز کیا جو صرف 300 سعودی ریال ماہانہ تک ادا کر سکتے تھے۔” انہوں نے مزید کہا۔ “2013 میں جب ان بچوں کے لیے مختلف علاج کی ضرورت کو تسلیم کیا اور ان کے والدین کو گھر میں تبدیلیاں لانے کی تربیت دینا تھی تو میں نے ایک آزاد تعلیمی مرکز شروع کیا۔”

ان کی ایک دوست جنہوں نے اطلاقی نفسیات میں یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی، نے رضاکارانہ طور پر مدد کی اور وقت کے ساتھ وہ مزید پیشہ ور افراد کو لے کر آئے۔

عبدالعزیز نے ذکر کیا کہ چونکہ اس کے پاس اپنا لائسنس نہیں تھا تو انہوں نے گذشتہ سال تک ایک رجسٹرڈ ادارے کے طور پر اس سینٹر کو چلانے کے لیے مقامی سعودی شہریوں کے ساتھ اشتراک کیا۔

انہوں نے کہا کہ “سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے میں نے جون 2022 میں غیر ملکی کے طور پر اپنے لائسنس کے لیے درخواست دی اور اسے حاصل کر لیا۔”

اس سے وہ مرکز کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہو گئیں۔

آئی ایل سی میں داخل بچوں کی غالب قومیتوں کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک سے تھا۔

انہوں نے مزید کہا، “فی الحال ہمارے پاس 42 رجسٹرڈ بچے ہیں کیونکہ ہماری صلاحیت تقریباً 40-45 بچوں کی ہے لیکن ہم مستقبل میں اسے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔”

عبدالعزیز نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا مرکز مسلسل تربیت اور تھراپی پروگرام پیش کرتا ہے تاکہ ان بچوں کو ایسے افراد کے طور پر ڈھالنے میں مدد ملے جو اپنی بنیادی ضروریات کو خودمختار طور پر پورا کر سکیں۔

انہوں نے نشاندہی کی۔ “آٹزم ایسی چیز نہیں ہے جس کا علاج کیا جا سکے۔ یہ ایک اعصابی عارضہ ہے۔ لہذا ہم ان بچوں کو مسلسل تربیت اور تھراپی پروگرام فراہم کرتے ہیں۔”

فیس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ مرکز میں اس کا تعین خاندان کے معاشی پس منظر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا۔ “ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ 2019 کے بعد سے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مملکت میں انشورنس کمپنیاں اب علاج اور آٹزم سے متعلق کچھ اخراجات کو پورا کرتی ہیں لیکن بہت سے خاندان ان فوائد سے ناواقف ہیں۔ اس لیے ہم ان کے ادائیگی کے تفکرات کو دور کرنے کے لیے انہیں انشورنس کوریج کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔”

عبدالعزیز نے نوٹ کیا کہ انہوں نے وژن 2030 کے آغاز کے بعد سے مملکت میں کافی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔

انہوں نے کہا، “خواتین کو بااختیار بنانے میں بہتری آئی ہے اور مختلف شعبوں میں خواتین کے لیے مواقع بڑھے ہیں۔

Related Posts