امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے اور غزہ کی پٹی کی موجودہ جنگ میں حماس اسرائیلی فوج کیخلاف اسرائیل کا ہی اسلحہ استعمال کر رہی ہے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس اپنے ارکان کو اسرائیلی فوجی اڈوں سے چوری کیے گئے ہتھیاروں سے مسلح کر رہی ہے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ نہ پھٹنے والا اسلحہ حماس کے لیے دھماکہ خیز مواد کا بنیادی ذریعہ ہے۔
اخبار کے مطابق ہتھیاروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 فیصد گولہ بارود عموماً نہیں پھٹتا لیکن اسرائیل کے معاملے میں یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
اخبار نے ایک اسرائیلی انٹیلی جنس افسر کے حوالے سے کہا کہ ان میں سے کچھ میزائلوں کی ناکامی کی شرح 15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار ایال ہولاتا کے مطابق غزہ میں ایک فوجی صنعت ہے۔ زمین کے اوپر اور نیچے ان کے اسلحہ کے کار خانے ہیں۔ وہ جو اسلحہ چاہتےہیں وہاں تیار کرتےہیں۔
ایک مغربی فوجی اہلکار نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حماس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں استعمال ہونے والے زیادہ تر ہتھیار اسرائیل کی طرف سے فائر کیے گئے ان بموں سے تیار کیےگئے تھے جو گرائے جانے کے بعد نہیں پھٹ سکے۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام کو معلوم تھا کہ ان کے ہتھیاروں کے ڈپو چوری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
پچھلے سال کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک فوجی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمزور حفاظتی اڈوں سے ہزاروں گولیاں اور سیکڑوں ہتھیار اور دستی بم چرائے گئے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کچھ ہتھیار مغربی کنارے اور کچھ کو سیناء کے راستے غزہ اسمگل کیا گیا۔
دو اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق 7 اکتوبر سے پہلے غزہ اور مصر کے درمیان کم از کم 12 چھوٹی سرنگیں اب بھی کام کر رہی تھیں۔
تاہم مصری حکومت کے ترجمان نے اخبار کو بتایا کہ مصری فوج نے اپنی سرحد کے اطراف میں سرنگوں کو بھی بند کر دیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس وقت غزہ کی پٹی کے اندر موجود بہت سے ہتھیار اسرائیل کے اندر سے اسمگلنگ کا نتیجہ ہیں۔
دریں اثناء اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ اسرائیلی اڈے سے کچھ ہتھیار لوٹ کر غزہ لے جائے گئے تھے۔