حماس کو سرنگوں کی جنگ کی ماہر مسلح فریڈم فائٹر تنظیم کا درجہ حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی سرنگوں کی تکنیک نے اسرائیل کی پوری ریاست کو اس کی تمام تر تباہ کن فوجی طاقت کے باوجود چکرا کر رکھ دیا ہے۔
دنیا حیران ہے کہ مٹھی بھر افراد پر مشتمل اپنے وطن کی آزادی کیلئے لڑنے والی یہ تنظیم کس طرح جرات و بہادری سے اسرائیل جیسی بڑی فوجی طاقت کا مقابلہ کر رہی ہے اور تقریبا دو مہینے سے اس نے میدان جنگ میں اسرائیل کی فوج کو ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔
اس وقت حماس کا طریقہ جنگ، اس کی اسلحی قوت، افرادی طاقت کے ساتھ ساتھ سرنگوں کی زیر زمین آباد کی گئی دنیا بھی زیر بحث ہے اور دنیا کے بڑے بڑے عسکری ماہرین انگشت بدنداں ہیں کہ حماس اور اس کی برادر تنظیموں نے کیسے اسرائیل کی ناک تلے، اس کی دنیا کی ٹاپ انٹیلی جنس موساد، جس کی دہشت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، کو چکما دے کر زیر زمین سرنگوں کا وہ جال پھیلایا، جسے حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران حماس کی قید سے رہا ہونے والی ایک اسرائیلی بوڑھی اماں نے تارِ عنبکوت یعنی مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی اور جسے دنیا بھر کے عسکری ماہرین زمین پر میدان جنگ کا انڈر گراؤنڈ کمانڈ سینٹر قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر سرنگیں کیسے کھودی گئیں؟ اس کیلئے کونسے اور کس طرح کے آلات بروئے کار لائے گئے، جن کی مدد سے یہ محیر العقول کارنامہ انجام پایا ہے؟
اسلامی تاریخ میں ایک اور اسی طرح کا محیر العقول کارنامہ فاتح قسطنطنیہ (استنبول) سلطان محمد الفاتح کے نام پر درج ہے۔ قسطنطنیہ یعنی استنبول کی فتح صدیوں تک اسلام کی فوجی تاریخ میں عزائم اور امنگوں کو مہمیز دینے والی منزل رہی ہے، کیونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو فتح کرنے والے لشکر کو بشارت عطا فرمائی تھی۔
چنانچہ اس بشارت عظمیٰ کو پانے کیلئے عہد صحابہ سے ہی کوششیں شروع کی گئیں۔ شام و عراق کی جانب اسلامی سلطنت کی فتوحات جاری رہیں، یہاں تک کہ سلطنت روما کی سرحدیں سکڑتی گئیں، مگر قسطنطنیہ کی فتح خواب ہی رہی۔
زمینی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لشکر صدیوں تک سمندری راستے سے بھی فتح قسطنطنیہ کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے مگر آٹھ صدیوں تک اسلامی فوجوں کیلئے قسطنطنیہ نا قابل تسخیر بنا رہا۔
آخر کار نویں صدی ہجری کے وسط میں سلطنت عثمانیہ کے ساتویں صاحب جلال بادشاہ سلطان محمد فاتح نمودار ہوئے اور انہوں نے دنیا کی فوجی تاریخ کا محیر العقول کارنامہ انجام دے کر قسطنطنیہ کی فتح کو قابل عمل کر دکھایا۔
سلطان محمد الفاتح نے منفرد کام یہ کیا کہ انہوں نے خشکی پر کشتیاں چلا کر قسطنطنیہ کے ساحل پر گولڈن ہارن (شاخ زریں) تک رسائی حاصل کی اور وہاں ان کشتیوں کے ذریعے اپنی فوج اتار کر راتوں رات ایسا حملہ کیا کہ بازنطینی حیران رہ گئے اور پھر صدیوں سے ناقابل تسخیر کھڑا قسطنطنیہ چند پہروں کی مار ثابت ہوا۔
حماس نے بھی دنیا کی جابر ترین طاقت کے سامنے اب تک جو لازوال جرات و استقامت دکھائی ہے، وہ اپنی جگہ، مگر حماس کی سرنگوں کی تکنیک کا تاحال کوئی جواب نہیں۔
حماس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے و الے عرب ابلاغی ماہرین کے مطابق حماس 2020 سے اس جنگ کی تیاری کر رہی تھی اور اسی مقصد کیلئے وہ دن رات زیر زمین سرنگوں کی دنیا بھی بنائے جا رہے تھے۔
الجزیرہ کے نامہ نگار احمد موفق زیدان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مصر میں مختصر مدت تک صدر رہنے والے الاخوان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد مرسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
احمد زیدان کے مطابق ڈاکٹر محمد مرسی نے حماس کو سرنگیں کھودنے والی جدید مشینیں دلا دی تھیں۔ یہ انہیں مشینوں کا کمال ہے۔
ان کے مطابق محمد مرسی نے حماس کے لیے یہ مشینین خصوصی طور پر باہر سے منگوائی تھیں، چنانچہ ان مشینوں کے ذریعے حماس کے پرعزم مجاہدین نے زیر زمین ایک الگ دنیا قائم کر دی، جہاں اسپتال، کمانڈ سینٹر، اسلحہ ذخیرہ کرنے کا گودم سمیت وہ سب کچھ ہے، جو اسرائیل کے مقابلے میں جاندار مزاحمت میں آج ان کے کام آرہا ہے۔
ان سرنگوں کے ذریعے حماس اور اس کی برادر عسکری فریڈم فائٹر تنظیمیں کب تک مقابلہ کر پاتی ہیں اور اس جنگ کا انجام کیا ہوگا، اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ان سرنگوں نے دجالی ریاست، اس کے تمام ہرکاروں، سرپرستوں اور فوجیوں کی سٹی گم کر رکھی ہے۔