اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے مریم نواز کو پارٹی کی چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر مقرر کرتے ہوئے انہیں جماعت کی ’تنظیم نو‘ کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ن لیگی ماہرین کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی نامزدگی سوچ سمجھ کر کی گئی ہے جو موجودہ حالات میں سب سے زیادہ موثر ہوگی۔
مریم نواز کو پارٹی کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن منگل کی دوپہر جاری کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پارٹی کو متحرک اور متحد کرنا مریم نواز کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا، تاہم ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ن لیگ کو دوسرے لیڈرز کے مقابلے میں زیادہ بہتر متحرک کر سکتی ہیں۔
یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال مریم نواز کیلئے کتنا بڑاچیلنج ہوگی؟
اس بارے میں ن لیگ کے متعدد رہنماؤں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کو جلد وطن واپس آنا ہو گا جس کے لیے رواں ماہ کے آخر یا مارچ سے قبل ان کی پاکستان واپسی کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی رانا مبشر اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز لندن کی بجائے پاکستان سے پارٹی کو چلائیں گی لیکن وہ جب تک لندن میں ہیں، تب تک ضروری امور لندن سے ہی چلائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز بہت جلد پاکستان واپس آئیں گی اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ نواز شریف کو ساتھ لے کر آئیں، تاہم مریم نواز کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا تعین نواز شریف کریں گے۔
رانا مبشر اقبال نے مزید کہا کہ شہباز شریف پارٹی کے منتخب صدر ہیں اور پارٹی آئین کے مطابق شہباز شریف پارٹی میں نامزدگیاں کر سکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے مریم نواز کی نامزدگی کی ہے۔
موجودہ صورت حال مریم نواز کیلئے کتنا بڑا چیلنج ہے؟
سیاسی ماہرین کے مطابق مریم نواز نے جس طرح اپنے والد کے ساتھ گزشتہ کئی سال سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا ہے اس سے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں وہ مقبول ضرور ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس حکومت کی مایوس کن کارکردگی کا بوجھ اٹھا پائیں گی؟ اور عوام کو مطمئن کر سکیں گی کہ ان کی پارٹی آئندہ اقتدار میں آئی تو لوگوں کے مسائل حل کرے گی؟‘
ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ مریم نواز لندن بیٹھ کر پارٹی کو منظم نہیں کر سکیں گی بلکہ انہیں اسی ماہ کے آخر یا مارچ سے پہلے وطن واپس آنا ہوگا۔ ان کی آمد کے بعد عوامی ردعمل کو دیکھ کر ہی نواز شریف کی واپسی ممکن ہوگی۔
اُن کی کارکردگی سے ہی ن لیگ کے مستقبل کا تعین ہوگا کیونکہ انہیں ہی نواز شریف کے متبادل کے طور پر مستقبل میں پذیرائی مل سکتی ہے ورنہ جب بھی مزاحمت یا جدوجہد کا دور آتا ہے سابق وزیر، مشیر اور رہنما تو سائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں اور شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کے حمایتی بن جاتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار میں سے کچھ کے خیال میں نواز شریف کے بعد مریم نواز کو ن لیگ میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔ عمران خان کے دور میں جس طرح سے انہوں نے عدالتی کارروائیوں اور نیب کے مقدمات کا والد کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس وقت بہادری سے مہم چلائی جب بولنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مزاحمت کے باعث ہی طاقتور حلقوں نے ن لیگ کے ساتھ بات چیت شروع کی، اس وجہ سے انہیں نہ صرف پارٹی بلکہ عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہوگئی۔
مریم نواز موجودہ حکومت میں بھی عوامی مشکلات پر آواز اٹھاتی رہی ہیں، حکومتی عہدے پر بھی فائز نہیں ہوئیں، اس لیے لوگوں میں وہ اپنی پارٹی کی ساکھ بحال کرنے میں شاید دوسرے لیڈرز کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہیں۔
سیاسی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اُن کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ اُن کے وطن واپس آنے کے بعد ہی ہوگا کہ عوام کس حد تک ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت معاشی مشکلات اور انتظامی ناکامیوں پر ابھی تک قابو نہیں پاسکی۔